پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ پاکستان جنگ کے ذریعے کشمیر فتح نہیں کر سکتا۔ یہ مسئلہ صرف اور صرف باہمی دوستی اور مشاورت کے ماحول میں ہی حل ہو سکتا ہے۔
حنا ربانی کھر جو کہ 2011-13 میں پاکستان کی وزیر خارجہ رہ چکی ہیں کا کہنا ہے پاکستانی بچوں کو پچھلی چھ دہائیوں سے نفرت ہی سکھائی جارہی ہے اور یہی نفرت بھارت اور افغانستان سے دوستانہ تعلقات کی راہ میں حائل ہے۔
انہوں نے جیو نیوز سےبات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی ۔ اس نے ویزا کی شرائط میں نرمی اور دو طرفہ تجارت کے لیے سہولتوں کا اعلان کیا تھا۔
میں کہتی ہوں کہ” پاکستان کشمیر کو جنگ کے ذریعے فتح نہیں کر سکتالہذا پھر دوسرا آپشن بات چیت کا ہی رہ جاتا ہےاور یہ ڈائیلاگ اسی وقت آگے بڑھ سکتا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات ہوں اور ایک دوسرے پر اعتماد ہو”۔حناربانی کھر جو کہ پاکستان کی کم عمر
ترین وزیر خارجہ تھیں نے کہا۔
پچھلے ساٹھ سالوں میں ہم نے اپنے بچوں کو اپنی قومی پہچان ہی یہ دی ہے کہ دوسروں سے نفرت کی جائے اوراس نفرت کا اظہار ہم اپنے قریب ترین ہمسایوں سے کرتے ہیں۔بھارت اور پھر اب افغانستان سے یہ مخاصمت جاری رکھی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا
پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل الزام تراشیوں کے ماحول میں حل نہیں ہو سکتے۔ مسائل کے حل کے لیے ایک دوستانہ ماحول چاہیے
جو کہ مسلسل مذاکرت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور مسئلہ کشمیر کا تصفیہ بھی ایسے ہی ممکن ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر کامسئلہ بی جے پی اور پاکستان کی فوجی حکومت کے درمیان مذاکرات میں ہی حل ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ سابقہ فوجی جنرل مشرف نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں کافی پیش رفت کی تھی اور کشمیر کے مسئلہ پر کافی رعایتیں دی تھیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی پر جرنیلوں کی اثر انداز ہونے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ڈپلومیٹ کا کام ہے کہ جب ضرورت پڑے وہ اپنے ملک کی آرمی کے نقطہ نظر کو بھی ساتھ لے کر چلے جہاں فوج بھی ایک بڑی سٹیک ہولڈر ہو۔
پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی عمل کی بجائے ردعمل پر کام کرتی ہےکیونکہ ملک نے اپنی کوئی واضح پالیسی ہی نہیں بنائی اور پاکستان صرف اس خطے اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہا
کھر کا کہنا تھا پاک امریکہ تعلقات میں کمی اور بھارت کی طرف جھکاو کی وجہ بھارت کی بڑی معیشت اور مارکیٹ ہے اور امریکہ چین کے اثرو رسوخ کو بھی روکنا چاہتا ہے۔
لہذا ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ امریکہ کا بھارت کی طرف جھکاو اس لیے نہیں ہے کہ وہ نیوکلئیر پاور ہے بلکہ بھارت ایک جمہوری ملک ہےجس کی اپنی جمہوری روایات ہیں اور اس کی ایک بڑی معیشت اور مارکیٹ ہے۔ اگر ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے تو ان شعبوں میں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہ پاکستان کا افغان جہاد میں حصہ ہی پاکستان کی بہت بڑی غلطی تھی اور زمینی حقائق کا ادراک کیے بغیر اسلام آبادکی واشنگٹن پر مکمل انحصار کی پالیسی غلط تھی۔
♦