جاوید غامدی کا علمی غبن اور غنودگی

خان زمان کاکڑ

a2faa1b0988a5c18e89002ca412cda3d

جاوید احمد غامدی کا تعلق مذہب کے اس معذرت خوا نہ طبقے سے ہے جو جدید دنیا کے اکثر مقبول رجحانات کو یا تو اسلام سے ماخوذ سمجھتا ہے اور یا قرآنی متون کو کھینچ تان کر اس کی مطابقت جدید دنیا کے کچھ مقبول رویوں، تحریکوں اور نظریوں سے بنانے کی سعی لاحاصل کرتا ہے۔ غامدی صاحب کا اس کسب کے ساتھ تعلق جماعتِ اسلامی کی رکنیت حاصل کرکے ہی پیدا ہوا تھا ۔ وہ اپنے آپ کو جماعتِ اسلامی سے بڑھ کر کچھ خاص قسم کا صحیح مسلمان سمجھتے ہیں میرے لئے ان کی حیثیت اب بھی جماعتِ اسلامی کے کسی عام مْلا سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن مذہبی معذرت خواہوں(اپالوجسٹ) کے نزدیک غامدی صاحب ملاؤں کے تھوڑے معتدل اور عالم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی کتابیں اور ویڈیوز بھی یہی ماڈرن مذہبی معذرت خواہ لوگ خریدتے ہیں۔ ۔ ماڈرن مسلمان جب غامدی صاحب کی کوئی زیادہ برخلافِ توقع بات سن لیتے ہیں تو مایوسی کے انداز میں ان کا ردِعمل یہ ہوتا ہے ‘‘ آخر غامدی صاحب بھی!۔۔۔

مذہب میں’ معتدل‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی دہشت گردی کی زیادہ جذباتی حمایت نہیں کرتا ہے یا کم سے کم انصار عباسی یا اوریا مقبول جان جیسا نہیں ہوتا۔’معتدل‘ بذات خود ایک معذرت خواہانہ اصطلاح ہے اور شکست خوردہ ذہن کے لوگ اس اصطلاح کو بڑے مثبت انسانی وصف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ایک تو ہمارے لوگ ان مْلاؤں سے زیادہ تنگ آچکے ہیں جو ہر گلی کوچے میں نفرت، دشمنی، قتل و قتال اور خونریزی کی تبلیغ برملا کرتے نظر آتے ہیں اور دوسرا یہ کہ سماجی علوم میں ان کا مطالعہ ایک ادھ اردو کتاب سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے وہ غامدی برانڈ اسلام کا جلد ہی شیدائی بن جاتے ہیں۔ غامدی صاحب کی دانشوری اور عمران خان کی سیاست صرف ان لوگوں کو اپیل کرسکتی ہے جو اسلام کو ملائیت اور جدیدیت کے آمیزے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔

بنیادی معلومات اور تنقیدی شعور کے فقدان میں جب حسن نثار جیسے لوگ دانشور بن سکتے ہیں توغامدی صاحب جیسے لوگوں کیلئے مذہبی سکالر بننا کوئی مشکل کام نہیں۔ موجودہ دنیا میں غامدی برانڈ اسلام کی بڑی قیمت بھی ہے۔ پاکستان کے ایک سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر اکبر ایس احمد اسی برانڈ کے اسلام کی بدولت مغرب میں ایک بڑی پْر مسرت زندگی گزاررہے ہیں۔ غامدی اور اکبر ایس احمد دونوں اسلام میں سائنس، جدیدیت، جمہوریت، خواتین کے حقوق، قوم پرستی اور روشن خیالی ثابت کرنے کیلئے تاویلات گھڑنے میں اب اتنے ماہر بن چکے ہیں کہ بیرونی دنیا میں بھی دونوں کی بڑی خاصی پذیرائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اکبر ایس احمد کی طرح غامدی بھی طالبان کو پشتون کلچر کی پیداوار سمجھتے ہیں۔

سماء ٹی وی کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں وزیرستان میں، پولیس اہلکاروں کے گلے گاٹنے کے واقعے اور طالبان کی شریعت پر تبصرہ کرتے ہوئے غامدی صاحب نے کہا ہے کہ قبائلی تمدن میں گلا کاٹنا ایک معمولی بات ہے۔ قبائلی تمدن میں انتقام کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ قبائلی تمدن میں لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی دہشت دوسروں پہ طاری ہوجائے۔ قیام پاکستان کے بعد قبائلی علاقے کو جدید ریاست کا حصہ نہ بننے سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ غامدی صاحب کی نظر میں جو کام ریڈ انڈین اورقدیم آسٹریلین قبائل کے ساتھ ہوا وہی فاٹا کے ساتھ بھی اگر ہوتا تو یہ موجودہ دہشت گردی دیکھنے کو نہ ملتی ۔ قبائلی علاقوں میں مذہب کی ایک خاص تعبیر ہوتی ہے۔ وہاں پہ سر کاٹنا، لوگوں کو ذبح کرنا اور سنگسار کرنا ایک بہت عام سی بات ہوتی ہے۔

غامدی صاحب نے خاتون اینکرپرسن کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ہم اور آپ کو اگر ایک مرغی ذبح کرنی ہو تو ایک تردد محسوس کریں گے اس لئے کہ ہماری پرورش اور تربیت مختلف ہوئی ہے۔ لیکن ایک سات سالہ قبائلی بچہ بعض اوقات ہم اور آپ کے سامنے ایک آدمی کو ذبح کرینگے ان کو کچھ فرق نہیں پڑے گا، وہاں یہ ایک معمول کی بات ہے، کلچر کا حصہ ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک طالبان باغی ہیں انہوں نے ریاست کو چیلنج کیا ہے۔ ان کے ساتھ معاملہ کرنے کیلئے آپ کو انہیں سمجھنا پڑے گا۔ افغانستان میں اگر آپ لوگوں کو لاہور اور کراچی یا لندن اور نیویارک کے لوگ سمجھ کرکے معاملہ کرینگے تو آپ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔

میں غامدی صاحب کے اس انٹرویو میں موجود چند تاویلات، مبالغوں اور گمرائیوں کا تجزیہ کرنا چاہوں گا۔ غامدی صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام تو امن ، آشتی اور انسان دوستی کا مذہب ہے۔ طالبان جو کچھ کرتے ہیں وہ ان کے قبائلی تمدن کا حصہ ہے۔

وہ قبائلی تمدن کی اس یورپی متعصبانہ تشریح پہ یقین رکھتے ہیں جس کے مطابق ٹرائبل کا مطلب تہذیب سے دوری، پسماندگی، قتل و قتال اور بربریت تھا۔ غامدی صاحب تاریخی اور سیاسی زاویوں پہ غور کرنے کی بجائے قبائلی علاقوں کا ایک معاشرتی اور ثقافتی تجزیہ اس عام متعصبانہ اورینٹلسٹ اور یوروسینٹرک تناظر سے کرنا چاہتے ہیں جونوآبادیاتی دور میں تو بڑا مقبول تھا لیکن اب یورپ میں بھی اس کی نہ صرف کوئی افادیت باقی نہیں رہی ہے بلکہ وہاں ہی پہ اس کے خلاف بڑے موثر تنقیدی تناظربھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

۔۔۔ غامدی صاحب ریڈ انڈین اور آسٹریلین قبائل پر بیرونی حملوں کی نہ صرف تعریف کرتے ہیں بلکہ اس کی پیروی کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔
۔۔۔ وہ قبائلی کلچر کی تشریح کو جنرلائز کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں پہ بھی کوئی قبائلی معاشرہہوگا وہاں پہ سر کاٹے جائیں گے۔
۔۔۔ غامدی صاحب کی نظر میں قبائلی علاقوں میں جاری دہشت گردی میں ریاست کا اس سے بڑھ کر کوئی کردار نہیں کہ اس نے کیوں ابھی تک ان علاقوں کو اپنے باقاعدہ نظام کا حصہ نہیں بنایا۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ کیا وجہ ہے کہ ریاست ابھی تک قبائلی علاقوں کو اپنے باقاعدہ نظام کا حصہ بنانے سے انکار کرتی ہے؟

۔۔۔ غامدی صاحب نے فاٹا میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ازبک، تاجک، چیچن، عرب اور پنجابی دہشت گردوں کا ذکر اس وجہ سے نہیں کیا ہے کہ اس سے پھر ان کے قبائلی تمدن والے مفروضے کو نقصان پہنچتا ہے۔
۔۔۔ غامدی صاحب پشتون کلچر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف موجود قبائلی علاقوں کے کتنے دورے کیے ہیں اور قبائلی تمدن کے حوالے سے جو تاویلات انہوں نے پیش کیے ہیں ان کا کوئی ماخذ ہے بھی؟

۔۔۔ غامدی صاحب سر کاٹنا قبائلی تمدن کا ایک حصہ اور ایک عام سی بات سمجھتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی گمراہ کن بات ہے۔ ہم جو کہ خود پشتون قبائلی معاشرے کے رہنے والے ہیں بچپن میں والدین نے بتایا تھا کہ سر کو گالی نہیں دینا اس لئے کہ سر کواللہ تعالی خود بناتا ہے اور باقی بدن کو فرشتے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی پورے پشتون وطن میں طالبان کی دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ کسی ایسے واقعے کا نہیں سنا ہے جس میں انسانوں کے سر کاٹے گئے ہوں۔

۔۔۔ سوات جو کہ پاکستان سے پہلے اپنی ریاست کا ایک بھرپور تجربہ رکھتا ہے اور اب پاکستان کے باقاعدہ ریاستی نظام کا حصہ بھی ہے، خواندگی کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔ غامدی صاحب قبائلی علاقوں اور سوات کے طالبان میں کتنا فرق محسوس کرتے ہیں؟ طالبان شاہی میں سر کاٹنے کے واقعات بھی دونوں جگہوں پہ ہوئے ہیں۔

۔۔۔ غامدی صاحب قبائلی علاقوں میں انتقام کو کچھ اس طرح کا معاملہ سمجھتے ہیں جس میں لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے کے بغیر کوئی کام ہی نہیں جانتے ہوں گے۔ غامدی یہ نہیں جانتے کہ وہاں پہ انتقام کا کیا خدوخال اور کیا طریقہ کار ہیں؟ وہ اگر غیرریاستی معاشروں کے سیاسی نظاموں کے بارے میں کچھ جانتے یا کم از کم افریقی معاشروں کے بارے میں کچھ پڑھتیتو ان کو انتقام کے معاملے میں اتنی منفیت کبھی نظر نہیں آتی۔ انتقام سے بچنے کیلئے پشتون کلچر میں کشیدگی کو ختم کرنے یا مسائل کو حل کرنے کا جو میکانیزم ہے غامدی اس کے بار ے میں کچھ نہیں جانتے۔ غامدی جوکہ طالبان کو پشتون قبائلی لوگ سمجھتے ہیں ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ ان طالبان اور ریاست کی دشمنی کیا ہے؟ اس ریاست نے تو طالبان کا کوئی ایسا نقصان نہیں کیا جس کا طالبان انتقام لیتے ہیں اور ایف سی کے اہلکاروں کو ذبح کرتے ہیں۔ طالبان قیادت کو تو ڈرون حملوں میں مار پڑی ہے پاکستانی فوج نے تو ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ جو شہروں میں خودکش حملے اور بم دھماکے ہورہے ہیں یہ کس سے انتقام لیا جارہا ہے؟

۔۔۔ غامدی صاحب نے اپنے اس انٹرویو میں پنجابی کلچر کی خوب تعریف کی ہے کہ اگر ان کو ایک مرغی بھی ذبح کرنی ہو تو وہ ہچکچائیں گے۔ لیکن پنجاب میں غیر مسلموں خاص کر مسیحیوں کی بستیوں کی بستیاں جلا دی جاتی ہیں اس کی ہم کیا تشریح کرینگے؟ اقلیتوں پہ لوگ کہاں ایک ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوتے ہیں؟ پنجابی طالبان کون ہیں اور کیسے پیدا ہوئے؟

۔۔۔غامدی صاحب نے اس خطے میں دہشت گردی کی تمام تاریخ، بین الاقوامی، مذہبی، سیاسی اور ریاستی وجوہات کو نظر انداز کرکے قبائلی تمدن کو اس لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ اسی ایک طریقے سے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جو کچھ انہوں کہا ہے ایک عرصے سے پنجابی حکمران خصوصاً رانا ثناء اللہ بھی یہی کچھ فرما رہے ہیں۔ حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کو بھی شاید غامدی صاحب نے ہی یہ مشورہ دیا ہو کہ طالبان کی شریعت کو’’شورش زدہ علاقے ‘‘تک محدود رکھا جائے۔

۔۔۔ غامدی صاحب اگر عمران خان کی پارٹی کے ترجمان ہوتے تو میں ان پہ ہرگز کچھ نہیں لکھتا۔ آج ان چند ایک باتوں کو عرض کرنے کی صرف ایک وجہ تھی کہ قارئین کو ان کا ایک مختصر تعارف کراسکوں جو ان کی کتابیں پڑھ اور ویڈیوز دیکھ کر باقی ملاؤں پر لعنت بھیجتے ہیں۔

عجیب بات ہے پوری اسلامی تاریخ میں بنو امیہ سے لے کر بنو عباس ایک دوسرے کے سر قلم کرتے رہے، قبر سے لاشیں نکال کر ان کی ہڈیاں تک پیس ڈالتے اور پھر بھی غامدی کہتے ہیں کے یہ اسلامی روایات کا حصہ نہیں بلکہ پختون روایات ہیں۔
*

7 Comments