بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔ پاکستان کے پاس اگلے دس سال میں امریکہ اورروس کے بعد سب سے زیادہ ایٹمی اسلحہ کا ڈھیر ہوگا۔۔ پاکستان معاشی، تعلیمی، فلاحی لحاظ سے دنیا کا پس ماندہ ترین ملک گنا جاتا ہے۔ لیکن ہماری اسلحہ اور فوجی طاقت کی شوقینی امریکی جیسی سپر طاقت سے کم تر نہیں۔
پاکستان اپنے عوام کی تمام بنیادی ضروریات زندگی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ پس ماندگی ہے، غربت ہے۔ بے روزگاری ہے۔ بڑے شہروں کے علاوہ پورے ملک میں ٹوٹا پھوٹا انفراسٹرکچر ہے۔ سیاسی اور ریاستی نظام نہائت کمزور ہے۔ حکمران اشرافیہ کرپٹ اور نالائق ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ لیکن ہمارے جرنیلوں کو ایٹم بم اکٹھے کرنے کا شوق ہے۔
گمان غالب ہے۔ ان کو یا تو پتا نہیں ایٹم بم کس کو کہتے ہیں۔ یا ایٹم بم سیکورٹی کے نام پر کھانے پینے کا ایک ایسا وسیع میدان ہے۔جہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اربوں کھربوں کا خفیہ کھاتہ ہے۔ جو قوم سے لے لیا جاتا ہے۔ جہاں کسی کی کوئی جواب دہی نہیں۔ امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے زمانے میں ایک سوال اٹھایا جاتا تھا کہ ان کے پاس اتنا ایٹمی اسلحہ ہے، کہ وہ کئی بار اس ہماری زمین کو فنا کرسکتے ہیں۔
ظاہر ہے، کسی چیز نے فنا تو ایک ہی بار ہونا ہوتا ہے۔ ایک بار فنا کے بعد وہ ہوگی نہیں۔ تو پھر فنا کیا کرنا ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے جنرلوں سے پوچھنا چاہئے۔ کہ وہ انڈیا اور پاکستان کو کتنی بار فنا کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ تو وہ پہلے ایٹمی ہلے میں ہی پار ہو جائے گا (خاکم بدہن)۔ کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئے۔ ایٹمی اسلحے کی دوڑ انتہائی قیمتی انسانی اور مالی وسائل کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
ہمیں ‘روک‘ ڈیٹرنس کی حد تک ایٹمی اسلحہ چاہئے تھا۔۔ قومی سلامتی بنیادی طور پر معاشی ترقی اور عوام کی خوشحالی سے ہوتی ہے۔ اسلحہ اور فوجی طاقت سے نہیں۔۔ قوم کا خون نچوڑ کر ایٹمی اور روائتی اسلحے کے ابنار اکٹھے کرنا۔۔اور علاقائی امن کے لئے سنجیدہ رویے بھی اختیار نہ کرنا۔۔۔ بے حسی ہی کہا جاسکتا ہے۔
میری تجویز ہے، یونیورسٹیوں میں فزکس کے پروفیسرز ہمارےجرنیلوں کو بتائیں کہ ایٹمی اسلحہ جب چلتا ہے، یا جب چلے گا، تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ شائد تب ان کی جنونیت میں کچھ کمی آ پائے۔