جنرل اور معصوم مْلاّ

امیر ہویا

amir
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور 1999 میں چند گھنٹوں تک اپنے آپ کو پاک فوج کے سپہ سالار ماننے والے جنرل خواجہ ضیاالدین بٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں جہاں بہت سی عسکری اور غیر عسکری رازوں سے پردہ اٹھایا وہاں انہوں نے اس وقت افغانستان کے امیر المومنین مُلاعمر سے اپنی ملاقاتوں کا احوال بھی بیان کیا ہے۔

فرماتے ہیں کہ ’مُلا عمر نے کہا کہ دیکھو یہ امریکہ والے مجھے ٹورسٹ کہتے ہیں، میں نے اسے بتایا تمہیں ٹورسٹ نہیں ٹیررسٹ کہتے ہیں، وہ بڑی خطرناک چیز ہوتی ہے۔ دیکھیں مُلا عمر تو اتنا سیدھا آدمی تھا کہ اسے یہ فرق بھی نہیں پتہ۔‘

کبھی کبھی ایک جملہ ایک پورے ادارے کی سوچ اور حکمتِ عملی کا عکاس ہوتا ہے۔ جو بات سینکڑوں اخباری بیانات اور تجزیات سے آپ کو سمجھ نہیں آسکی وہ بات صرف اتنی سی ہے کہ گزشتہ تیس سال سے پاک فوج کا پہلے مجاہدین اور اس کے بعد طالبان کے بارے میں (اور اس کی بنیاد پر تمام افغان پشتونوں کے بارے میں) فلسفہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ سادہ دل ہیں، وہ معصوم ہیں، ان کے دل جذبہِ جہاد سے سرشار ہیں، وہ ہمیں قرونِِ اولٰی کے مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں، ان کی خودی بلند ہے، طالبان وہ مردِ مومن ہیں جو ہمیں بننا تھا لیکن دنیاداری کے کاموں میں پھنس کر نہ بن پائے۔

اس جذبہِ ایمانی کے پیچھے جنگی حکمتِ عملی یہ ہے کہ اپنے ہی بچے ہیں جب کان سے پکڑ کر سمجھائیں گے تو سمجھ جائیں گے۔

امریکہ کے پالیسی سازوں اور پاکستانی فوجی ہمرکابوں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ طالبان کو خصوصاً اور پشتونوں کو عموماً عام انسان نہیں سمجھتے۔ امریکہ انہیں خون کے پیاسے درندے سمجھتا ہے جو ابھی ابھی غاروں سے نکلے ہیں اور نکلتے ہی لڑنا شروع ہوگئے ہیں، اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک انہیں نیست و نابود نہیں کر دیا جاتا اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہیں مغربی تہذیب اور منی سکرٹ سے نفرت ہے۔

دوسری طرف ہمارے فوجی دانشور سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں میں جذبہ جہاد کے سوا کچھ نہیں۔ اگر وہ اپنی عورتوں کی ناک کاٹ دیں تو یہ ان کا کلچر، اگر وہ چودہ سال کے بچے کو بارودی بیلٹ پہنا کر مسجدوں میں بھیجیں تو ان کے کلچر کا حصہ (یوں لگتا ہے کہ طالبان کی آمد سے پہلے افغان پشتونوں کا کوئی کلچر نہیں تھا)، لیکن فوجی حکمتِ عملی یہی ہے کہ پہلے ان سے روسیوں کو مروایا تھا، پھر ہندو مروائے تھے، اب امریکیوں کو مروا رہے ہیں اور جب وہ دْم دبا کر بھاگیں گے تو ایک بار پھر ہندوؤں کو مروائیں گے۔ آخر اتنے ہندو افغانستان میں کیا کر رہے ہیں؟

اگر ان سب کو مروانے کی کشمکش میں ہمارے اپنے کوچہ و بازار میں ہمارے اپنے پیاروں کے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے، ہماری مسجدوں، امام بارگاہوں، کلیساؤں اور درگاہوں میں ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے عقائد پر وار ہوتا ہے تو ہم سب سہہ لیں گے، کیونکہ ہمارے چند گھنٹے تک رہنے والے سپہ سالار جنرل بٹ نے فرمایا ہے کہ ملا عمر تو اتنا معصوم ہے کہ اسے سیاح اور دہشتگرد کا فرق نہیں پتہ۔ (تو ظاہر ہے دہشت گرد سیاحوں کا علم بھی نہیں ہوگا)۔

اور چونکہ ہمارے اپنے طالبان بھی افغان طالبان کے روحانی بھائی ہیں تو ان کی معصومیت کچھ ان میں بھی در آئی ہوگی۔

اْس کے بعد بچے ہمارے نظریاتی مجاہد، جن کو ہم بندوق برداروں سے ممتاز کرنے کے لیے علما مشائخ کہتے ہیں (حالانکہ وْہ بھی آج کل بندوق بردار محافظوں کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے) وہ تو ہیں ہی معصوم اور اگر کسی کو شک تھا تو جنرل بٹ کے باس اور خادمِ پنجاب نے گزشتہ اتوار کو علما پر مشرف دور میں کیے گئے تمام مقدمات ختم کر کے دور کر دیا ہے۔

کاش ایسی رحم دِلی ان بلوچ بچوں کے بارے میں بھی دکھائی جائے جو سالہا سال سے لاپتہ ہیں اور جن کی خبر ہماری اِنتہائی آزاد عدلیہ بھی نہیں لاسکی۔

Comments are closed.