بھارتی پریس سے: غضنفر علی خان
ہندوستان کیلئے بات چیت کے ذریعہ باہمی مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ پاکستانی اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے بند کر دیتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے دہشت پسندانہ حملوں کے بعد اب یہ امکان ختم ہوگیا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کیلئے مذاکرات بھی ہوسکتے ہیں، حالانکہ امن کیلئے تمام راستے بات چیت اور تبادلہ خیال کی راہ داری پرچل کر ہی مل سکتے ہیں۔
آج کل پاکستان کے تیور کچھ زیادہ ہی بدلے ہوئے ہیں۔ کشمیرکے اُری علاقہ میں فوجی چھاؤنی پرپاکستان کے حملہ اور اس میں ہمارے 18 جوانوں کی ہلاکت نے سارے ہندوستان میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ اب ہندوستان میں بہت سے لوگ یہ باور کر نے لگے ہیں کہ پاکستان سے جنگ وہ بھی آر پار کی جنگ کے علاوہ کوئی متبادل باقی نہیں رہا لیکن سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے اب بھی جنگ کو مسائل کی یکسوئی کا واحد اور موثر ذریعہ نہیں سمجھتے جہاں تک ہندوستانی حکومت کا تعلق ہے وہ بھی جنگ کے ناگزیر ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہی ہے ۔
جنگ اگر نہ کریں تو پھر پاکستان کو راہ راست پر لانے کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے۔ آج کی متحدہ دنیا میں جنگ کے بارے میں کئی سیاسی لیڈر اور مدبرین کا یہ کہنا ہے کہ ’’جنگ بہترین انسانی صلاحیتوں کا بدترین استعمال ہے‘‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’جنگ میں وہ لوگ زیادہ زخمی اور متاثر ہوتے ہیں جو محاذ جنگ پر نہیں جاتے۔ قول فیصل بھی ہے کہ نوع انسانیت کو جنگ ختم کردینی چاہئے ورنہ جنگ نوع انسانی کو ختم کردے گی۔
ہندوستان ان تینوں افکار سے متفق ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے ہیں اور نہ اپنی پارلیمان پر حملے کو پاکستان سے خوفزدہ ہوکر خاموشی اختیار کرسکتے ہیں۔ ہم نہ پٹھان کوٹ کے واقعہ کو کبھی بھول سکتے ہیں اور نہ اُری کے فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے کو فراموش کرسکتے ہیں۔ اب ایسی صورت میں ہمارے لئے ایک ہی راستہ رہتا ہے کہ ہم پاکستان کیخلاف ایسی موثر اور کامیاب اور جارحانہ سفارتی کوشش کریں کہ پاکستان اپنی دہشت پسندی کی سرکاری پالیسی کی وجہ ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوجائے ۔
پاکستان کیلئے اب ہمیں ایسی ہی جارحانہ سفارتی مہم شروع کرنی چاہئے تھی جس کی کامیاب کوشش شروع ہوچکی ہے ۔ دنیا کے سب سے بڑے فورم یعنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر خارجہ سشما سوراج کی 18 منٹ کی تقریر نے جس کے دوران انہوں نے ایک مرتبہ بھی پاکستان سے جنگ کی بات نہیں کہی۔ ہماری جارحانہ سفارتی مہم کی سب سے اہم کڑی تھی۔
اس کے علاوہ دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے معاہدہ پر نظرثانی کرنے اور اس پانی کا زیادہ حصہ ہندوستان کے استعمال میں لانے کی حکمت عملی بھی اختیار کی گئی ہے ۔ پاکستان کے لئے دریائے سندھ کا معاہدہ اس کی شہ رگ کی طرح اہم ہے ۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک ہندوستانی ٹی وی چینل پر دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ دریائے سندھ کا پانی کا معاہدہ صرف ہند۔پاک کے درمیان ہوا معاہدہ نہیں ہے بلکہ اس کو بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے۔
اول تو یہ کہ سندھ آبی معاہدہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان 1960 ء میں طئے ہوا تھا جس میں تبدیلی کا ہندوستان کو حق ہے ۔ پانی کی کمی ہوتی ہے تو اس سے پاکستان کے صوبہ سندھ کی حالت خراب ہوجائے گی اور پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکے گا ۔ یہ بھی ہندوستان کی کامیاب ڈپلومیسی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے ۔
ہندوستان نے جنرل اسمبلی میں بھی زوردیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ برصغیر میں دہشت گرد ی کرنے اور کرانے والا صرف پاکستان واحد ملک ہے۔ اس لئے پاکستان کو ’’دہشت پسند ملک‘‘ قرار دینا چاہئے ۔ رفتہ رفتہ ہندوستان کی اس رائے سے عالمی برادری اور خاص طور پر یوروپی ممالک متاثر ہورہے ہیں۔
امریکہ نے بھی کشمیر کے مسئلہ پر پا کستان کی شرارت اور دہشت پسندانہ حملوں کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ پاکستان سے صاف طور پر کہا ہے کہ وہ اس دہشت پسندی کی روک تھام کرے ۔ برطانیہ نے بھی پاکستان کو ٹکا سا جواب دیا ہے ۔ فرانس نے بھی پاکستان کی باقاعدہ سرکاری اور فوج کے ذریعہ کی جانے والی دہشت پسندی کی مذمت کی ہے ۔ چین جس کو پاکستان اپنا قریبی دوست سمجھتا ہے پاکستان کے رویہ کا سخت مخالفت کی ہے ۔
آہستہ آہستہ ہندوستان کی پالیسی ہے کہ پاکستان کو دہشت پسند ملک قرار دیا جائے ۔ عالمی برادری اتفاق کر رہی ہے ۔ اب اگلا قدم یہ ہوگا کہ پاکستان پر کڑی پابندیاں لگائی جائیں ۔ پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہے۔ پابندیوں سے پاکستان کی کمر ٹوٹ جائے گی ۔ ہندوستان نے تقریباً 10 سال سے پاکستان کو ’’بے حد پسندیدہ ملک ‘‘ ( تجارتی معاملات کی حد تک کا درجہ دے رکھا ۔ پاکستان ہمارے ملک سے زائد از نصف بلین کی تجارت کرتا ہے۔ اب ہندوستان ۔پاکستان کو دیئے گئے اس خصوصی موقف کو ختم کرنے والا ہے۔
یہ پاکستان کی معیشت پر ایک اور ضرب کاری ہوگی۔ 20 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھتا جائے گا کہ وہ سرکاری دہشت گردی کی روک تھام کیلئے مجبور ہوجائے گا۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر شکست دے کر ہم زیادہ محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ جنگ سے زیادہ خطرناک بھی حربے ہیں جو آج کے دور میں ہندوستان استعمال کرسکتا۔
آٹھ 8 جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم سارک بھی ایک فورم ہے جو اس کے ذریعہ بھی پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ اسی سال ماہِ نومبر میں اسلام آباد میں سارک چوٹی کانفرنس ہونے والی ہے جس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے ۔ ہندوستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہندوستان کے اس عقلمندانہ فیصلے سے متاثر ہوکر بھوٹان ، بنگلہ دیش اور افغانستان نے بھی شرکت نہ کرنے کا ابتدائی فیصلہ لے لیا ہے ۔ اس فیصلہ کی وجہ سے سارک سربراہ کانفرنس کا انعقاد نا ممکن ہو گیا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی مملکتیں جو ’’ہمالیائی ممالک ‘‘ کے زمرہ میں ہیں، پاکستان کے رویہ سے سخت ناراض ہیں۔
اگر یہ ممالک یہ باور کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے سب سے بڑے اور طاقتور پڑوسی ملک ہندوستان کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہے تو پھر دوسرے چھوٹے پڑوسی ممالک کو اپنی آزادی اور خود مختاری کو پاکستان سے لاحق خطرات کو سمجھ لینا چاہئے ۔ سارک کانفرنس میں اگر بنگلہ دیش ، بھوٹان اور افغانستان شریک نہیں ہوتے ہیں تو سارک کے اصولوں کے مطابق کسی چوٹی کانفرنس کیلئے درکار رکن ممالک کی کم سے کم تعداد یا کورم پورا نہیں ہوتا اور اصولاً کانفرنس ہی نہیں ہوسکتی۔
اس سے ظاہر ہے کہ پاکستان کے تعلق سے علاقائی ممالک بھی کئی قسم کے شکوک و شبہات کے شکار ہوگئے ہیں ۔ دنیا کی 1/6 آبادی ہندوستان میں بستی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان ، بنگلہ دیش بھوٹان بھی شامل ہوجائیں تو دنیا کی آبادی کا ایک قابل لحاظ حصہ پاکستان کی دہشت پسندانہ پالیسی سے اتفاق نہ کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ نہ صرف مغربی ممالک بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہورہے ہیں۔
سری لنکا اور مالدیپ نے بھی کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں غیر یقینی کیفیت پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ پاکستان بڑی تیزی سے عالمی برادری سے عملاً الگ تھلگ ہورہا ہے۔ اگر ہندوستان اپنی ان کوششوں کو اسی شدت کے ساتھ جاری رکھنے تو اس کی یہ سفارتی حکمت عملی کامیاب ہوگی اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا