پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے حکام کے مطابق دارالحکومت کوئٹہ میں ایک بس پر فائرنگ کے واقعے میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی چار خواتین ہلاک ہو گئی ہیں۔یہ واقعہ منگل کی شام کرانی کے علاقے میں پیش آیا ہے اور ہلاک شدگان کا تعلق ہزارہ قبیلے سے بتایا گیا ہے۔اس حملے میں ایک خاتون سمیت دو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
صوبے کے وزیر داخلہ میرسرفراز بگٹی نے بتایا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے ایک بس پر فائرنگ کی جس میں یہ خواتین بھی سفر کر رہی تھیں۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان انوارالحق کاکڑ کے مطابق جب یہ لوکل بس کرانی کے علاقے میں پہنچی تو وہاں نامعلوم مسلح افراد اسے روکا اور ان خواتین کو نشانہ بنایا جن کا تعلق ہزارہ قبیلے سے تھا۔
انھوں نے بتایا کہ فائرنگ کے نتیجے میں چار خواتین ہلاک ہوگئیں جبکہ ایک خاتون سمیت دو افراد زخمی ہوئے جنھیں ابتدائی طبی امداد کے لیے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے اور حملے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔انوار الحق کاکڑ کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔
ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے شیعہ مسلک کے افراد کو کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ
ماضی کے مقابلے میں ان واقعات میں بہت کمی آئی ہے۔
جبکہ ہزارہ کمیونٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خواتین کا قتل عام ریاستی دہشت گردی ہے جو ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے کرائی گئی ہے کیونکہ کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں جہاں قدم قدم پر پیر ا ملٹری فورسز کی چیک پوسٹیں اور مسلسل گشت پر مامور سیکیورٹی اہل کاروں کی موجودگی میں کوئی نام نہاد دہشت گرد ایسا اقدام کر سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح یا تو سیکیورٹی ایجنسیاں ناکام ہو چکی ہیں یا پھر وہ مذہبی انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ ماضی کے قتل عام کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست اور اس سے وابستہ سیکیورٹی ادارے حسب روایت اس کاروائی کو بھارتی ایجنسی را کی کاروائی قرار دے کر سردخانے کی نذر کر دیں گے۔
BBC/News desk