بلوچستان میں ذکری فرقہ

liaq

لیاقت علی ایڈووکیٹ

بلوچستان کے ضلع کیچ میں پچھلے ہفتے ذکری کمیونٹی کے روحانی پیشوا سید ملا اختر مولائی کونامعلوم موٹر سا یئکل سوار دہشت گردوں نے قتل کردیا ۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے میڈیا کو جاری کئے گئے بیان میں مولائی کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

بی ایل اے نے اپنے بیان میں نے کہا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہم نے مولائی کو اپنی تحویل میں لیا تھا لیکن بعد ازاں مقامی عمائدین کی مداخلت اور یقین دہانی پر انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد میڈیا بیان کے مطابق مولائی نے اپنی سابقہ روش نہ بدلی اور ’آزادی ‘ کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

ذکری کمیونٹی اور اس کے عقائد بارے میں ہمارے ہاں بہت ہی کم معلومات ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ذکریو ں اورا ن کے عقائد کے بارے مصدقہ معلومات تو بالکل ہی مفقود ہیں ۔ا ن کے بارے میں عام طورپر جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سنی سنائی باتوں پر مشتمل پراپیگنڈہ ہے جس کا مقصد ذکریوں کو ’ دائرہ اسلام سے باہر ثابت کرنا ‘ہے۔

ذکریوں کی اکثریت بلوچستان کے مکرا ن ڈویژن اور گوادر کے علاوہ اندرون سندھ اور کراچی میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے علاوہ ذکری افغانستان کے شہر فراح ، ایران کے صوبے خراسان کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ ذکریوں کے عقائد کی طرح ان کی تعداد کے بارے میں بھی مصدقہ معلومات کی کمی ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ذکری تقریبا ساڑھے سات لاکھ کے قریب ہیں ۔

ذکری نسلی طور پر بلوچ ہیں اور کچھ بلوچ قوم پرستوں کے نزدیک ذکری عقائد پر بلوچ ثقافت کا رنگ اتنا گہر اہے کہ اگر ذکریت کو’ بلوچستان کا قومی مذہب ‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ذکری فرقہ بنیادی طور پر مہدوی ہیں ۔ مہدویت کا بانی حید ر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے سید محمدجونپوری کومانا جاتا ہے ۔

سید محمد جونپوری نے حج کے دوران خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے مہدی ہونے کا اعلان کیا تھا ۔ عرب کے عوام اور علما نے ان کے اس دعوی کو کوئی اہمیت نہ دی لیکن واپس ہندوستان واپس آکر گجرات کاٹھیا وار میں جب انھوں نے اپنے مہدی ہونے کااعلان کیا توبہت سے مقامی افراد اور گروہوں نے ان کے اس دعوی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔

سفر حج کے دوران سید محمد جونپوری بلوچستان میں بھی رکے جہاں مقامی بلوچ کے ایک حصے نے ان کی تعلیمات کو درست تسلیم کرتے ہوئے ان کے دعوی مہدویت کو مبنی بر حققیت تسلیم کیا اور ان کے پیروکار بن گئے ۔ بلوچستان کے ذکریوں کی اکثریت مچھیروں پر مشتمل ہے اور وہ غربت کی لکیر کے کہیں آس پاس زندگی گذارتے ہیں ۔

ذکری عمومی طور پر حنفی فقہ کی پیروی کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں ذکر کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ فجر اور عصر کی نماز کے بعد ذکر کی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ وہ عبادت گاہ کو مسجد کی بجائے ’خانہ ذکر ‘ کہتے ہیں ۔ ذکری ’خانہ ذکر ‘ میں نماز کی امامت صرف ’مرشد‘ ہی کرسکتا ہے ۔ ذکری 26-27رمضان کی درمیانی شب تربت کے نواح میں واقع کو ہ مراد پر قائم ’زیارت گاہ ‘پر جمع ہوتے اور د و رکعت نوافل ادا کرتے ہیں ۔

ذکریوں کے مخالف الزام لگاتے ہیں کہ دراصل ذکری کوہ مراد پر ’حج‘ کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں جب کہ ذکریوں کا دعوی ہے کہ یہ محض ’زیارت ‘ ہے اس کو حج کا نام دینا بنیاد پرستوں کا پراپیگنڈا ہے ۔ روایت کے مطابق جب سید محمد جونپوری بلوچستان سے گذرے تو انھوں نے کوہ مراد پر قیام کیا تھا اس نسبت سے ذکریوں کے نزدیک کوہ مراد کو قابل احترام ہے ۔

بعض دیگر مسلم باطنی فرقوں کی طرح ذکری بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن پاک کے خفی معانی ہیں اور یہ صرف مہدی ہی کو معلوم ہیں جو اپنے پیروکاروں کو یہ معانی بتلاتے ہیں ۔ ذکری صدیوں سے بلوچ معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کی عقائد کی بنیا دپر کبھی انھیں امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔

لیکن جنرل ضیا ء الحق کے عہد میں کچھ ایرانی عسکریت پسندوں نے ذکریوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جس کی بنا پر ذکری بلوچستان کے مختلف شہروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔ 2014میں ’خانہ ذکر ‘ پر حملہ کرکے چھ ذکریوں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ اس واقع کے بعد بہت سے ذکری اپنے عقائد کو چھپانے پر مجبور ہوئے اور کچھ نہ ذکری عقیدے کو چھوڑ کر حنفی اسلام قبول کر لیا ۔

ایک بلوچ دانشور کے مطابق ذکری پکے اور سچے بلوچ ہیں اور وہ چونکہ بلوچستان کے حقوق کی جدو جہد میں بھر پور حصہ لیتے ہیں اس لئے مذہبی انتہا پسند اور سکیورٹی ادارے انہیں نشانہ بناتے ہیں۔

Comments are closed.