ریاستی بیانیے کے محافظ لکھاری

nsq

نقیب زیب کاکڑ

کوئی بھی سرمایہ دار ریاست اپنا وجود دو طرح سے برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے ؛ ریاست کی پہلی قسم ان ریاستوں کی ہے جو سماجی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہیں ۔ جب کہ دوسری قسم ان ریاستوں کی ہے جو ریاست اور ریاست میں رہنے والے ایک فی صد مقتدر طبقے کی حفاظت کو مقدم جانتے ہیں۔ وہ ریاست کے وجود پر ہزاروں اور لاکھوں قیمتی جانوں کو قربان کرتے ہیں اور ان قربانیوں کو جائز قرار دینے کے لیے زر خرید لکھاریوں اور دانش وروں سے اس کی حمایت میں رائے عامہ بھی ہموار کرا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ جدید دور میں ہم بہ مشکل کسی ایسی ریاست کا نام لے سکتے ہیں جو مکمل طور عوامی فلاح و بہبود کے لیے وجود رکھتی ہو، کوئی بھی ریاست عوام کو اس حدتک سپورٹ دیتی ہے جس کے بعد جدید ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے مفادات کی حد شروع ہوجاتی ہے ۔

زیادہ تر ممالک اپنے وجود کو مستحکم اور برقرار رکھنے کے لیے وقت کے اہم اور زیادہ پڑھے جانے والے لکھاریوں کو اعتماد میں لیتے ہیں تاکہ وہ ریاستی پروپیگنڈہ کو بھرپور طریقے سے پھیلانے میں معاون ثابت ہوں۔ جدید ریاستی ڈھانچے میں ان لکھاریوں کو اہمیت حاصل ہے جو جدید سرمایہ داری کو بھر پور دانش ورانہ دلائل سے عوام میں فروغ دیتے ہیں۔ اس دوران وہ ایک آدھ بار غربت کو بھی زیر بحث لے آتے ہیں اور اس کا حل بھی سرمایہ داری میں تلاش کرتے ہیں۔

وہ صحافی جو حقیقی دانش ورانہ بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہیں، انتہائی کم ہیں ، کیونکہ اس میدان میں ہمارے ہاں زیاد تر افراد حادثاتی طور پر آئے ہیں، جتنی تعداد میں ہیں ان میں چھوٹے صوبوں کے لکھاریوں کو وہ حیثیت اور اہمیت حاصل نہیں ہوتی جو اہمیت بڑے صوبے کے صحافیوں کو ملتی ہے ، ان میں خصوصاً مذہبی سوچ کے حامل افراد کو اہمیت حاصل ہے ، اور لیفٹ کی سوچ رکھنے والوں کو خصوصاً ریاست کی عدم دلچسپی کی وجہ سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

آج کل صوفی قسم کے مذہبی اور لبرل لکھاری صحافیوں کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ صوفی اس لیے کہ عوام میں صبر کو فروغ دیتا ہے اور لبرل اس کے سرمایے کو تحفظ اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے کے لیے ریاست اور سرمایہ داریت کے لیے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ صبر کو فروغ دینے میں تبلیغی جماعتوں کا بھی اہم کردار ہے ۔ تبلیغی جماعتیں صبر کی تلقین کے ساتھ ساتھ عوام کو سیاست سے بھی کنارہ کش کرنے کی کو شش کرتی ہیں۔ وہ معاشی استحصال کو انسان کے اعمال سے منسلک کر کے عبادت سے نظام یا اس کی معاشی حالت ٹھیک کرانے کی تلقین کرتے ہیں۔

ان جماعتوں کو ریاست کے اداروں میں خصوصی دعوت دے کر بلایا جاتا ہے یا پھر ان کے لیے ماحول سازگار بنا لیا جاتا ہے ۔۔۔ یہ لوگ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات کی طرح موقع کی مناسبت سے بیان تیار کرتے ہیں، مثلاً ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات قومی دنوں میں خصوصی رنگ اور اداکاری کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔۔۔ ٹھیک اس طرح ان کی تقریروں میں بھی ان دنوں کی مناسبت سے مذہبی حوالے دیے جانے لگتے ہیں۔

ریاست لکھاریوں کو مو قع کی مناسبت سے منتخب کرتی ہے ۔ مثلاً ایک دور تھا جب اسے مذہبی شدت پسند لکھاریوں کی ضرورت

تھی تو اس وقت اوریا مقبول جان، حامد میر، جاوید چوہدری ، ہارون الرشید وغیرہ خصوصی نظرِ کرم کے حامل تھے ۔ ضیاالحق کے دور میں تو نہ صرف اس قسم کے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی بلکہ ان کو مختلف اعزازات سے بھی نوازا جاتا تھا۔ اس وقت ریاستی قوم پرستی کو مذہبی دلائل سے درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

یہ پالیسی ریاستی اشرافیہ خصوصاً فوجی اور سول بیوروکریسی کے حق میں کارآمد ثابت ہوئی۔ ان کی راتیں شراب اور کباب سے رنگین ہوتی تھیں اور دن کو وہ شریعت لاگو کرنے میں مصروف ہوتے تھے ۔۔۔ ان لکھاریوں نے ریاست کی دوسرے ممالک میں مداخلت کا راستہ بھی ہموار کردیا۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان سمیت دوسرے ممالک میں مداخلت اپنا حق سمجھ لیا۔ سن 2000 تک پاکستان اسی پالیسی پر عمل پیرا رہا اور ان دانش ور نما لکھاریوں کا سہارا لے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔

اس دوران قوم پرستوں نے اس پالیسی کی بھر پور مخالفت کی لیکن مین سٹریم میڈیا پر تشدد پسندوں کے قبضے کی وجہ قوم پرستوں کے پروپیگنڈے کو اتنی اہمیت نہ مل سکی اور نہ ہی وہ ریاست کو کسی ایسے اقدام سے روکنے میں کامیاب ہوئے ۔نائن الیون کے بعد جب ریاست نے نیو لبرلزم کو سپورٹ کرنا شروع کیا تو اسے اس مائنڈ سیٹ کے دانش ور نما لکھار ی بھی مل گئے۔ اس کے بعد ہمیں میڈیا خصو صاً اردو میڈیا میں نیو لبرلز دکھائی دینے لگے ۔۔۔ واضح رہے اس دوران وہ لکھاری جو پہلے مذہبی اور مزاحیہ افسانہ نما کہانیوں سے نوجوانوں کا ٹائم پاس کراتے تھے ، وہ بھی روشن خیال ہو گئے ۔

جدید ریاست نے جمہوری دائرے میں آنے والے تمام قوم پرستوں کو اپنے ساتھ ملا لیا کہ وہ جن سے لوگوں نے مارکسزم سیکھی، وہ آج ریاست سے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حقوق مانگ رہے ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں ان کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی تحریروں سے اپنی بات منوانے کی کوششیں کرتے ہیں جنہیں ریاست اپنے مفاد کے لیے بہتر سمجھتی ہے ۔

جدید سرمایہ دارانہ سیاسی چالاکیوں میں جمہوریتسب سے زیادہ اور اچھا شکار کرنے والی چالاکی ہے ۔۔۔ آج کل جمہوریت کی تعلیم بالکل ایسے دی جاتی ہے جیسے مذہب میں صبر کی تعلیم دی جاتی ہے ، یعنی جمہوریت میں ایک جماعت کی باری سے پہلے دوسری جماعت عوام کو خاموش رکھتی ہے ، اور پانچ سال تک آپ اپنا حق نہیں مانگ سکتے ، نہ ہی آ پ نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرسکتے ہیں، جو ایسی جمہوریت میں کبھی بھی ممکن نہیں ہے ۔

ایک لکھاری کی جمہوریت کی تعریف ملاحظہ فرمائیں: ” جمہوریت ایک قانون نہیں جو لاگو کیا جا سکے بلکہ یہ ایک نفسیاتی عمل ہے جو دماغ میں بس کر جگہ بنا سکتا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب آپ نے جمہوری عمل کو قبول کیا ہے تو اس کے بعد خاموش رہنا اور صبر کرنا ضروری ہے ، کیوں ضروری ہے ؟!! ظاہر ہے اس نظام کو آگے بھی چلانا ہے ۔جب تک ہم اس نظام کے میکانزم سے آگاہ نہیں ہوتے ، تب تک ہم اس کے متبادل نظام کا مطالبہ نہیں کر سکتے ہیں۔

نوٹ: کاکڑ صاحب براہ کرم جمہوریت کے متبادل نظام کا ذکر بھی کردیں وہ کیا ہے اور کیسے آئے گا یا کیسے نافذ کیا جائے گا۔۔ ایڈیٹر

Comments are closed.