احتجاجی سیاست اور اسٹبلشمنٹ

aimal-250x300

ایمل خٹک

دو نومبر کی تاریخ قریب آنے سے ملک میں سیاسی ٹمپریچر بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف دو نومبر کی سیاسی دنگل کی تیاریوں میں زور و شور سے مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے راہنماوں کے درمیان لفظی جنگ شدید ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ لیکس کے کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم اور انکے بچوں اور داماد سمیت کئی افراد سے جواب طلب کرلیا ہے۔ تحریک انصاف کے احتجاجی اعلان اور بگڑتے ہوئے سول۔ملٹری تعلقات نے ملک کو ایک ایسے دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ایک راستہ امن او استحکام اور دوسرا انتشار اور انارکی کی طرف جاتا ہے۔ 

عمران خان اور نوازشریف  دونوں نے ابھی تک تمام کارڈز شو نہیں کیے۔ دو نومبر تک صورتحال مزید واضح ہو جائیگی کہ آنے والے دنوں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ سیاسی دنگل کے نتیجے میں سترہ دسمبر2014 والی صورتحال پیدا ہوگئی یا بارہ اکتوبر1999 والی اور یا بالکل کوئی نیا منظرنامہ ہوگا۔  اسٹبلشمنٹ بھی گدلے پانی میں مچھلی کا شکار کرنا چاہتی ہے لیکن شاید ان کو پتہ نہیں کہ تالاب میں مچھلیوں کے علاوہ مگر مچھ بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔   اس لیے اب کے بار شکار بہت سے خطرات سے پُر ہے۔  

اگرچہ پانامہ لیکس میں میاں نواز شریف کا نام براہ راست نہیں لیا گیا اور ان کے بچوں کے نام اس میاں شامل ہیں مگر نواز حکومت کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے سلسلے میں دانستہ یا غیر دانستہ تاخیر ان کے بارے میں  شکوک و شبہات کو جنم دے ر ہیں ہیں ۔  بدعنوانیوں کے حوالے سے ان کی پچھلےادوار حکومت میں کئی اسکینڈلز میں میاں برادران کا نام لیا گیا ہے۔ لیکن ناقص احتسابی نظام کی وجہ سے کوئی کیس ثابت نہ ہوسکا یا ان کو سزا نہ ہو سکی۔ 

تحریک انصاف ابھی تک حزب اختلاف کی کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ جبکہ قرائن بتاتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی غیر سیاسی حزب اختلاف اسٹبلشمنٹ اس کی حمایت کرتی نظر آرہی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اسٹبلشمنٹ ماضی قریب کی طرح صرف بعض من پسند فیصلوں کیلئے بلیک میلنگ اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے گھوڑوں پر داؤ لگا رہی ہے یا حکومت کی تبدیلی چاہتی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ فرشتے اس بار پھر سرگرم عمل ہے۔ اور اسٹبلشمنٹ شطرنج کے نئے گھوڑے بھی میدان میں اتار رہی ہے۔ روزمرہ سیاسی اصطلاح میں فرشتےانٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندوں کو کہتے ہیں۔ 

اسٹبلشمنٹ کے روایتی گھوڑے یا تو پٹ گئے اور یا ان دونوں کے مفادات میں پہلے والی مطابقت نہ رہی یا وہ اسٹبلشمنٹ کے اثر سے آزاد ہوگئے ہیں۔ نئے کھلاڑی کچھ پٹے ہوئےمذہبی گروپ ، عسکریت پسند تنظیمیں  اور پی ٹی آئی ہے ۔ پاکستان عوامی تحریک کی مثال بارہویں کھلاڑی کی ہے۔ بعض کالعدم انتہاپسند اور عسکری تنظیمیں کچھ عرصے سے اسٹبلشمنٹ کے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ ابھی تک ان تنظیموں کو ملک میں  جنگی جنونیت اور انتہاپسند ریاستی پالیسیوں کیلئے سازگار فضا بنانے اور قائم رکھنے کیلے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ ان کے

ذریعے پالیسی تبدیلی کیلئے اندرونی اور بیرونی دباؤ کو بھی کاؤنٹر کیا جاتا تھا۔ اب ان کو حکومتوں کو گرانے اور قائم کرنے کیے استعمال کرنے کی اطلاعات ہیں۔  بعض تجزیہ نگار عمران خان کی بعض طالبان نواز پالیسیوں کی وجہ سے ان کو طالبان خان بھی کہتے ہے۔ ان کے احتجاجی پروگرام میں عسکریت پسند حلقوں کی شرکت کی اطلاعات اگر صیح ہیں تو اس پر طالبان نوازی کے الزامات کو مزید تقویت ملے گی۔ 

ایک دوسرے کی ضد کہلائے جانے والے میاں نواز شریف اور عمران خان میں کئی اختلافات کے باوجود بہت سی خصوصیات مشترک بھی ہیں۔  مثلا دونوں اپنی اپنی جماعتوں کے اندر آمرانہ انداز سیاست کیلئے مشہور ہیں ۔ دونوں اناپرستی کے اعلی مقام پر فائز ہیں۔ دونوں وزارت عظمی کی دیوی کے پجاری ہیں۔  ایک ہر قیمت پر وزارت عظمی پر فائز ہونا چاہتا ہے دوسرا کسی بھی قیمت پر وزارت عظمی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ اس وقت ملک دو شخصیات کی انا کی رحم و کرم پر ہے ۔ دوسری طرف دونوں انا پرست شخصیات کی چپقلش سے فائدہ اٹھانے کیلئے اسٹبلشمنٹ جو اہم فیصلہ سازی پر بلا شرکت غیرے تسلط اور حاصل کردہ بیجا مراعات کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں، محلاتی سازشوں میں مصروف ہے۔  

عمران خان کو شیخ رشید اور کچھ دیگر ذاتی انا پرستی اور انتقام جوئی کی اعلی منازل پر فائز سیاسی شخصیات کی حمایت اور تعاون بھی حاصل ہے جو بغض معاویہ اور ہر صورت میں  موجودہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسلام آباد کو بند کرنے والے بعض عناصر اشتعال انگیزی اور تشدد کو شہہ دینا چاہتے ہیں ۔ تاکہ حالات خراب ہو اور ایمپائر حکومت کو آوٹ کرنے کیلئے انگلی اٹھائے۔   

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے عمران خان کے بیانات ، ان کی تقریر کا لب و لہجہ اور انداز کسی طور پر تہذیب اور شائستگی کا نمونہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ان کی عامیانہ اور غیر سنجیدہ انداز خطاب نے اور تو اور اس کے بہت سے پرستاروں کو بھی مایوس کر دیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے راہنماوں کے مطالبات اگر درست اور مناسب بھی ہوں مگر ان مطالبات کو منوانے کیلئے درست طریقہ کار اختیار نہیں کیا جا رہا ہے۔  بعض اوقات ان کے بیانات سیاسی سے زیادہ ذاتیات لگتی ہے۔ سیاسی شخصیات کی سیاست اور ذاتیات میں فرق کا ختم ہونا ان کی سیاسی زندگی کیلئے برا ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ عوام  عموماً اخلاق سے گری باتیں اور ذاتیات کو پسند نہیں کرتے۔ 

ہونا تو یہ چائیے تھا کہ تبدیلی کے دعوی دار دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت کچھ بہتر سیاسی اور جمہوری کلچر اور اقدار متعارف کراتے اور بدعنوانی ، اقربا پروری اور اندرون پارٹی آمرانہ فیصلہ سازی کی حوصلہ شکنی کرتےاور نئی روایات قائم کرتے ۔ صوبہ پختونخوا کو ایک ماڈل صوبے کے طور پر چلاتے اور وہاں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے اور بہتر طرز حکمرانی سے اپنا لوہا منواتے ۔ مگر پی ٹی آئی کی قیادت  جو تخت لاہور کو زیادہ اہمیت دیتی ہے نے زیادہ وقت اور توانائی احتجاجی سیاست میں ضائع کی۔  

صوبہ خیبر پختونخوا میں کچھ کاسمیٹک اقدامات کے علاوہ پی ٹی آئی کچھ نمایاں تبدیلی یا بنیادی اصلاحات نہ لا سکی۔  بلکہ اُسی فرسودہ نظام کے گندے انڈوں کے ذریعے وہ اس میں تبدیلی لانے کیلئے کوشاں ہے۔ پچھلی حکومتوں کو کوسنے اور ان کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے سے اب بات بہت آگے جا چکی ہے اب عوام حقیقی تبدیل کے خواہاں ہیں۔  پی ٹی آئی میں فیصلہ سازی کتنی جمہوری اور مشاورتی ہے اور پارٹی معاملات کو کیسے چلائے جا رہے ہیں وہ سب کو پتہ ہے۔  

کیا ہی اچھا ہوتا اور اخلاقی برتری اور معیار قائم کرنے کیلئے دوسروں سے آف شور کمپنیوں کے سلسلے میں استعفی مانگنے سے پہلےپی ٹی آئی کے ان راہنماوں سے جن پر آف شور کمپنیوں کے ذریعے ڈیلنگ کرنے کا الزام ہے استعفی طلب کئے جاتے۔ اور تو اور خود عمران خان پر بھی آف شور کمپنی کے ذریعے رقوم منتقل کرنے کا الزام ہے۔ جبکہ اس کے بعض پرانے رفقاء ان پر پارٹی فنڈز ، اسپتال اور دیگر عطیات میں خرد برد کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں مگر ان کی ابھی تک کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ 

جمہوری معاشروں میں حزب اختلاف کا اہم رول ہوتا ہے اور وہ زیادہ وقت پارلیمان کو دیتی ہے اورسڑکوں کو کم۔ مگر یہاں الٹا چکر چل رہا ہے حزب اختلاف اورخاص کر پی ٹی آئی زیادہ وقت سڑکوں پر احتجاج کو دے رہی ہے۔ عمران خان کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ پارلیمان کی کاروائی میں باقاعدگی سے حصہ لیتے اور اپنے آپ کو ایک بہترین پارلیمنٹرین ثابت کرتے۔ مگر انہوں نے پارلیمان کو فوقیت ہی نہیں دی اور وہاں اس کی حاضری واجبی سی رہی۔  اور بطور پارلیمنٹیرین کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کر سکے۔ 

اس طرح اہم قومی امور پر حزب اقتدار پر دباؤ ڈالنے اور مفاد عامہ میں قوانین اور پالیسیاں بنانے کیلئے حزب اختلاف کی جماعتیں مل کر مشترکہ جہدوجہد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مگر پی ٹی آئی کے سربراہ کی انا پرستی ، غیر لچکدار روئیے اور سولو فلائیٹ کے شوق نے اس کو تنہا کر دیا ہے ۔ اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ قومی امور پر مشترکہ جدوجہد کیلئے ضروری ہم آھنگی پیدا نہ کرسکے۔  

گزشتہ چند دنوں سے بعض کالعدم انتہا پسند اور عسکریت پسند تنظیموں کے کارکنوں کو اسلام آباد کو بند کرنے والے دھرنے میں استعمال کرنے کی اطلاعات اور افواہیں جس کی طرف بعض وفاقی وزراء نے اپنےحالیہ بیانات میں اشارے بھی کئے ہیں انتہائی تشویشناک بات ہے ۔  اسٹبلشمنٹ بھی اب حساب بیباق کرنے اور میاں نواز شریف کو پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش رکھنے کی پاداش میں سزا دینا چاہتی ہے۔ 

 کچھ انتہا پسند اور عسکریت پسند تنظیمیں بعض پالیسیوں کی وجہ سے حکومت سے ناراض ہیں ۔  اس کے علاوہ ان کو خدشہ ہے کہ بڑھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر حکومت ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا ارادہ رکھتی ہے ۔ دفاع پاکستان کونسل نے بھی اٹھائیس اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا ہے ۔ حکومت نے حال ہی میں عسکریت پسندی سے تعلق کے شعبے میں ہزاروں شناختی کارڈز بلاک اور شہریت منسوخ کی ہے جس میں کئی ایک سرکردہ انتہا پسند شخصیات  شامل ہیں۔ 

احتجاج کا حق ہر سیاسی پارٹی کو حاصل  ہے مگر سیاسی احتجاج کے کچھ پیمانے ہوتے ہیں۔ جس طرح کے پہلے دھرنے کے دوران ہوا کئی مواقع پر عمران خان نے نہ صرف اشتعال انگیز بیانات دئیے بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ۔ اس دفعہ چونکہ فرسٹریشن کی سطح پہلے دھرنے کی نسبت زیادہ ہے اس وجہ سے اشتعال انگیزی اور تشدد پر ابھارنے والے بیانات کو خارج امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ قانون کا احترام نہ کرنا اور قانون ہاتھ میں لینا کوئی قابل فخر بات نہیں اور یہ عمل کسی بھی ذمہ دار قومی راہنما کو زیب نہیں دیتا۔ 

اسلام آباد کو بند کرنے کا ارادہ یا خواہش ایک سیاسی اور جمہوری عمل نہیں ۔ پی ٹی آئی کی سیاسی مہم جوئیاں نظام کو کمزور کر رہی ہے جس کا خمیازہ عمران خان سمیت تمام قومی قیادت اور پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔  اگر فصل کو کھیڑا لگا ہے تو پوری فصل کو آگ لگانا کوئی دانشمندی نہیں۔ اگر سیاسی نظام میں خرابیاں موجود ہیں تو اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ نظام کو لپیٹنے کی۔

پی ٹی آئی کی قیادت جس مقصد کیلئے بھی یہ قدم اٹھا رہی ہے وہ مقصد کتنا ہی اعلی اور ارفع کیوں نہ ہو اس کے حصول کا یہ طریقہ کار غلط ہے ۔ اس طریقہ کار میں تباہی اور نقصان کا پہلو اصلاح اور بہتری سے زیادہ ہے۔  ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والی سوچ نہ تو سیاسی سوچ ہے اور نہ جمہوری۔ 

Comments are closed.