عظمیٰ ناصر
تیس30 اکتوبر کو کیا ہونے جا رہا ہے؟ یہ سوال عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ عمران خان اسلام آباد پر قبضہ کرنے آرہے ہیں یا کسی کو قبضہ د لو انے آرہے ہیں ۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے عمران خان کے سابقہ احتجاجوں پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔ خان صاحب نے 2013 کے انتخابات میں شکست کھائی مگر الیکشن کو آزادانہ اور منصفانہ قرار دیا ۔تاہم ایک سال بعد انھوں نے کچھ افراد او ر اداروں پر دھاندلی کے الزامات لگا دیے اور سپریم کورٹ اور جوڈیشل کمیشن کا دروازہ کھٹکٹا یا۔
جب عدلیہ نے فیصلے ان کے خلاف دیے تو خان صاحب نے ان پر سخت تنقید شروع کردی ،اور پھر احتجاجی سیاست کاراستہ اپنایا جس کے نتیجے میں وہ کوئی لگ بھگ 16 ہفتے اسلام آباد میں کنٹینر نگر آباد کر کے بیٹھے رہے ۔کنٹنیر سیاست کے دوران وہ پارلیمنٹ سمیت تمام سیاسی نظام کا تیا پانچہ کر نے کی کوشش کرتے رہے اور بار بار اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت د یتے ر ہے مگر اسی نظام کا حصہ بھی رہے ان کی شدید خو اہش رہی کہ کوئی نادیدہ ہاتھ انھیں چور دروازے سے اقتدار کے ایوانوں تک لے جائے مگر ایک بار پھر ناکامی خان صاحب کا مقدر بنی ۔
اب انھوں نے پاناما لیکس کوجواز بنا کے دوبارہ شہر اقتدار کو بند کرنے اور وزیر اعظم کے استعفیٰ تک بند رکھنے کی دھمکی دی ہے ۔یہ دھمکی وہ پہلے دھرنے کے دوران باربار دیتے رہے مگر اچانک وہ وزیر اعظم کا استعفی لیے بغیر دھرنا ختم کر کے گھر چلے گئے جس سے انکی سیاسی ساکھ کونقصان تو پہنچا مگر اب پھر وہ اسی مطالبے کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کر رہے ہیں اس دفعہ صورت حال پہلے سے مختلف ہے۔ اگر خان صاحب اس بار میاں نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر اسلام آباد سے گئے تو یہ تحریک انصاف کی سیاسی موت ہوگی۔
عمران خان اسٹریٹ پاور اورسول نا فرمانی کے زریعے اسلام آباد کو بند کر نا چاہتے ہیں جس کے مقابلے میں پولیس اور سول انتظامیہ حرکت میں آئے گی اور اس صورت میں تشدد اور خون ریزی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اور اگر صورت حال ہاتھ سے نکل گئی تو ماڈل ٹاون جیسا سانحہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔ 2 نومبر کواسلام آباد میں خان صاحب کی آمد کے متعلق انکشاف کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کا لعدم تنظیموں کےکارکن بھی لائیں گے اس خبر کے منظر عام ہوتے ہی وزیر د اخلہ چودھری نثار کی ان تنظیموں سے ملاقات بھی معنی رکھتی ہے۔
گوکہ چودھری نثار کے ان دنوں ن لیگ کی قیادت سے اختلاف کی خبریں بھی گرد ش کر ر ہی ہیں حال ہی میں ہونے والے ن لیگ کے کنونشن میں چودھری نثار کی غیر موجودگی ان خبروں کو تقویت دیتی ہے ،دوسری طرف ن لیگ کے وزراء یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کے خان صا حب اس بار بھی اسلام آباد سے نا کام لوٹیں گے ۔اس حد تک تواس بات سے متفق ہوا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کی پوری سیاسی اور نجی زندگی یو ٹرن سے تعبیر ہے ان کی شخصیت میں ایک بڑی خامی ہے کہ وہ فیصلہ کر کے اس پر قائم نہیں رہتے ،جبکہ ان کے پاس ایک بڑا چانس تھا کہ وہ اینٹی نواز شریف ووٹ لیتے لیکن ان کی غیر مستقیل مزاجی اور سیاسی بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا گراف نیچے آرہا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسٹریٹ شو اچھا کر لیتے ہیں مگر دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ایسے لوگ جو اپنے گلیمر سے لوگوں کو متاثر کر کے اسٹریٹ شو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ زیادہ عرصہ سیاسی افق پر چمک نہیں سکتے ، دوسری طرف انھیں کچھ ایسے اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے جو خود کو ملک کا اصل حکمران سمجھتے ہیں ،اس لیے ن لیگ کو 2 نومبر کے حوالے سے زیادہ خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے ۔ عمران خان نوازشریف کو کوئی بڑا سیاسی نقصان تو نہیں پہنچا سکیں گے مگر پر تشدد واقعات دونوں طرف سے ہونے کے امکانات ہیں ،اور اسلام آباد کی شہری زندگی کچھ دنوں کے لیے متاثر ہونے کے امکانات بھی ہیں۔2 نومبر سے پہلے یعنی یکم نومبر کو کورٹ سے پاناما لیکس کے معاملے پر حکم امتناعی کے بھی چانسز ہیں ۔
ادھر عمران خان کے ساتھ طاہرالقادری اور چودھری صاحبان نے بھی ساتھ دینے کی یقین دھانی کروا دی ہے دوسری طرف حکم امتناعی آنے کی صورت میں نواز شریف کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی اور ان کے استعفی کے دور دور تک کو ئی امکانات نظر نہیں آرہے ۔اب یہ ایک الجھی صورت حال ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ آخر یہ ڈگڈگی بجا کون رہا جس پر سب مست ناچ رہے ہیں۔ کیا ہو گا انجام اس سے بے خبر مگر یقیناً عمران خان کو بھی اندازہ ہے کہ اس ریہرسل سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ملنے والا جو تماشہ لگوائے گا اپنا فائدہ لے گا اور اگلا اسکرپٹ لکھنے میں جت جائے گا ۔عمران خان کے حصے میں پھر یو ٹرن ہو گا باقی کردار اپنا اپنا تماشہ کر کے اپنے اپنے گھر جائیں گے اور پھر جو جیسا تھا کی آواز آئے گی۔
♦