آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعدجب فوجی عدالتیں بنائی گئی اور پھانسیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا توایسا لگا نہ صرف کمر بلکہ دہشت گردوں کی گردنیں توڑی جارہی ہیں، اسی دوران دوسری جانب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب زور وشور سے جاری ہے۔ ہمیشہ یہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ اب کے بار دہشت گردوں کو صفہ ہستی سے مٹایا جائے گا ان کیساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اچھے اور برے کا فرق ختم کیا گیا ہے ،پھر یہ پڑھنے اور سننے کو ملا کہ جی اب کی بار تو ان کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا ،دوسری جانب ٹوٹی کمر والے دہشت گرد اپنی کاروائیوں میں مصروف تھے،اس دوران بلوچستان کے علاقے نوشکی میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ایک ڈرون حملے میں بھی مارا گیا۔ہم سمجھے ٹوٹی کمر اب لاعلاج ہوچکی ہوگی۔لیکن اس کے بعد کوئیٹہ میں آٹھ اگست کا واقعہ ہوا جس میں ستر سے زائد لوگ شہید ہوئے جن میں چھپن وکیل تھے،ایک ساتھ ایک ہی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا اس طرح اکھٹے مارا جانا اپنی نو عیت کا پہلا واقعہ تھا۔
اس کے بعد وی آئی پی مومنٹ،فوٹو سیشن،پریس بریفنگ،ٹاک شوز،مذمتی بیانات تعزیعتی بیانات ،غائبانہ نماز جنازہ اور سیاسی دوروں کا ایک نہ رکھنے والا سلسلہ شروع ہوا،ایسا لگتا ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں کو کسی سیاسی پروگرام کی ضرورت نہیں ہے سب کا کام یہی رہ گیا ہے کہ کہ اگلے حملے کا نتظار کرے اور پھر ان کی سیاست شروع۔آٹھ اگست کے واقعے کے بعد پڑھنے کو ملا کہ ہسپتالوں کی حالت ٹھیک کی جائے گی،ٹراما سینٹر بنایا جا رہا ہے،اور سب سے بڑھ کر وہی اعلی سطع کے اجلاس اور پھر یہ کہ اب صرف چند دہشت گرد بچ گئے ہیں ،باقی ان کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ ایک ہی کمر کئی دفعہ توڑی جارہی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ کمر ضرب عضب میں بھی توڑی گئی تھی۔
پچیس اکتوبر کی رات کو جس طرح کوئٹہ میں کئی بار ٹوٹی ہوئی کمر کے دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر میں گھس کر 61 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور ڈیڑھ سو کے قریب پولیس والوں کو زخمی کردیا ۔لیکن ریاستی اداروں نے آنسو بہانے والی وہی مشق دہرائی جو وہ سولہ نومبر سے دہرا رہے ہیں۔ اگر کچھ نیا ہے تو وہ یہ کہ یہ سب سی پیک کی خلاف سازش ہے۔وہ نوجوان جو کہ ہمارے اثاثے ہیں ان کی لاشیں پیک کر کے اس طرح ویگنوں کے چھتوں پر لاد کر بھجوائی جارہیں جیسے افغان بارڈر سے چمن کے ذریعے اسمگلنگ کا سامان گدھوں پر رکھ کر بارڈر پار لایا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں اصول یہ ہی کہ ترقی،میگاپروجیکٹس،قانون اور آئین سب عوام کے لئے ہوتے ہیں،انسانوں کے لئے بنتے ہیں انسانی ضروریات کو مد نظر رکھ کر ایسی چیزیں بنائی جاتی ہیں خاص کر مقامی آبادی کو اعتماد میں لیا جاتا ہے ان کو یہ باور کرایا جاتا ہے یہ سب ان کے لئے ہیں ان کے ثمرات انھیں ملیں گے ،عوام سے بڑھ کر ان کی تحفظ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا،لیکن یہاں سب کچھ اس کے برعکس ہورہاہے، ترقی کس کے لئے ،میگا پروجیکٹس کس لئے جن کی وجہ سے عوام کا جان و مال عزت محفوظ نہ ہوں ان کے تحفظ کو یقینی بنانے والی پولیس خود نہتے ہوکر ماری جائے،ان کے لئے انصاف کی جنگ لڑنے والوں کو تحفظ حاصل نہ ہوں،توپھر ایسے میں عوام کا حال کیسا ہوگا یہ میگا پرجیکٹس کس کام کا۔
کوئٹہ ہائی کورٹ میں ایک مہینہ کے لئے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک طرف کمیشن اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر پایا ہے کہ دوسرا سانحہ ہوگیا،کیا اب پھر سے ایک نیا کمیشنبنایا جائے گا؟یہ بلوچستان ہے یہاں اجتماعی قبریں،اجتماعی لاشیں،اجتماعی قتل عام سی بات ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ جب نئے ٹرینرز کی ٹریننگ ختم کی گئی تھی تو ان کو کیوں واپس بلایا گیا،ان کو کیوں روکا گیا،ان کوسیکورٹی کیوں نہیں دی گئی،ان کو اسلحہ کیوں نہیں دیا گیا۔کہیں ایسا تو نہیں تحریک انصاف کے ھرنے کو روکنے کے لئے حکومت نے ان کو اکھٹا کیا تھا اب اپنی غفلت کو چھپارہی ہے ۔
ایک شہید سپاہی کی والدہ کہتی ہے کہ وہ ادارے اس کے بیٹے کے قاتل ہیں جو ان کو تحفظ نہیں دے پائے،بلوچستان میں ویسے بھی لوگ پولیس سمیت سیکیورٹی کے اداروں میں بہت کم نوکری کرتے ہیں اس واقعے کے بعد اس میں اور بھی کمی آئے گی،یسے واقعات میں صرف یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ د ہشت گرد اور حکمران دونوں لاشوں کا کریڈٹ لے رہے ہیں وہ مار کرقبول کرتے ہیں اور یہ سی ون تھرٹی میں پہنچا کر مذمت کرکے ،فوٹو سیشن دوروں اور ٹاک شوز کے ذریعے اپنے اپنے منظور نظر اینکر پرسنز کو ذمہ داری دیکر عوامی جذبات کو چرب زبانی سے ٹھنڈا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔