اہلِ دانش کی ذمہ داری یا غداری

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامی

گزشتہ دنو ں برِ صغیر کے اہم دانشور سبطِ ؔحسن کی صدی کا سلسلہ جاری تھا، اسی اثنا میں پاکستان کی معروف دانشور عائشہ ؔصدیقہ پر غداری کا الزام لگ رہا تھا۔ ان پر یہ الزام نیا تو نہیں تھا۔قیام ِ پاکستان سے اب تک وہاں ہر اس دانشور پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے جس نے خلوصِ نیت کے ساتھ وہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ہے جو اس کا منصب ہے۔اپنی ذمہ داری کو نباہنے کے لیے دانشوروں اور اہلِ قلم کو قید و بند کی صعوبتیں بھی بھگتناپڑی ہیں، مفلوک الحالی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، اور انہوں نے اس ذمہ داری کی ادایئگی میں اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں۔

اہلِ قلم یا دانشوروں کی ذمہ داری کو مناسب طریقہ پر سمجھنے کے لیے ہمیں ادب اور سماج اور ادیب اور سماج کے اس تعلق کو پوری طرح سے جاننا ہوگا جس کی تعلیم ہمیں خود ہمارے اپنے دانشور اور مغرب کے وہ اہم دانشور جنہیں ہم جانتے ہیں، زمانے سے دے رہے ۔ حال ہی میں اس ضمن میں سبطِ حسن کی دو اہم کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن کے عنوان، ’’ادب اور روشن خیالی‘‘ ، اور ’’ ادیب اور سماجی عمل ‘‘ ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں ان مضامین کو بھی پوری طرح سمجھنا ہو گا جو اس ضمن میں تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ ان میں اختر حسین رائے پوری کا مضمون ’اد ب اور زندگی‘،

پریمؔ چند کا اہم خطبہ، ’’ادب کی غرض وغایت‘‘، مجنوں ؔگورکھپوری کا ’’فن اور جمالیات‘‘، احتشام ؔحسین کا ، ’’ادب اور تہذیب‘‘، فیض احمد فیضؔ کا، ’شاعر کی قدریں‘‘، اور ڈاکٹر عبدالعلیم ؔ کا مضمون ’’مارکسزم اور ادب ‘‘، ایسی اہم تحریریں ہیں جن کو پڑھے بغیر اہلِ دانش اور اہلِ قلم کا منصب اور ذمہ داری سمجھنا مشکل ہے۔

اس ذمہ داری کو سمجھنے کے لیئے ہم سب کو معروف دانشور Edward Said کی دو اہم کتابیں، Representation of The Intellectual اور ایڈورڈ سعید سے کیئے گئے انٹرویو کا مجموعہ Pen And The Sword ضرور دیکھنا چاہیئں۔ اس کے ساتھ ایک اور کتاب سے استفادہ بھی ضروری ہے جس کا پیش لفظ بھی ایڈورڈ سعید ہی نے لکھا ہے۔ کتاب کا عنوان Literature and Society ہے۔ کینیڈا کے ممتاز دانشور Northrop Frye کی فکر اور اہم کتاب The Critical Path بھی قرات کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس تحریر کا مقصد صرف قرات کی ایک فہرست فراہم کرنا نہیں، بلکہ آیندہ سطروں میں اس بیش بہا فکر کا خلاصہ بھی پیش ہے جسے ایڈورڈ سعید نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے۔ بقول جون ایلیاؔ، ان حوالوں اور کتابوں میں اک رمز ہے، جس رمز کا مارا ہوا ذہن، مژدہ ِ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا، زندگی میں کبھی آرام نہیں پاسکتا۔

وہ فرانسیسی مفکر ، ژولیاں بیندا ؔ Julien Benda کی فکرکا احاطہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ، ہر زمانہ میں نہایت غیر معمولی طور پر ذہین اور طباع انسانوں، اور اعلیٰ اصولوں اور مثالی اخلاقی ضابطہ پر عمل پیرا لوگو ں کا ایک بہت ہی چھوٹا سا گروہ ہوتا ہے جو انسانیت کا ضمیر ہوتے ہیں۔ Benda کے نزدیک اصل دانشور وہ ہوتے ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پر تنقید کرتے ہیں، مظلوموں کا دفاع کرتے ہیں، اور ناقص اور ظالم اربابِ اقتدار کے جبر کو رد کرتے ہیں۔ اس کے نزدیک حقیقی دانشور وہ ہوتے ہیں جنہیں ان کے احتجاج ، مزاحمت ، اور اعلانِ حق کی پاداش میں زندہ جلایا جاتا ہے، مصلوب کیا جاتا ہے، اور وہ برادری بدر، یا ملک بدر کیے جاتے ہیں۔ دانشوروں کے اس گروہ کو ممتاز شاعر شیلی ؔ Shelley نے معاشرہ کا ایسا قانون ساز قرار دیا تھا، جن کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی۔

دانشور کے منصب کی مثال میں Benda ہمیں بتاتا ہے کس طرح فرانسیسی دانشوروں نے شہہشاہ لوئی ؔچہاردہم کی بعض جنگوں کی مخالفت کی، کس طرح نیپولینؔ کے تشدد کی مزاحمت کی، کس طرح دانشوروں نے فرانسسیی انقلاب کی مخالفت کرنے پر برطانوی اربابِ اقتدار کو لتاڑا، اور کس طرح نطشے ؔ نے جرمنوں کی فرانسیسیوں کے خلاف زیادتی پر آوازِ احتجاج بلند کی۔

munir

یہ صرف تاریخی کہانیاں نہیں ہے، عصر ِ حاظر میں ہمیں ، Edward Said, Martin Luther King, Noam Chomsky, Tariq Ali اور Arundhati Roy جیسے عمل پرستوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کنندگان کو یاد رکھنا چاہیے جو اعزازات ، خطابات، اور مراعات کو رد کرتے ہوئے ساری انسانیت کے حق اور بقا کی جدو جہد کرتے رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ایڈورڈ سعید ایک فلسطینی عیسائی تھا لیکن اس نے اپنی ساری زندگی ہر فلسطینی کے حق کے لیے تج دی تھی۔

ایڈورڈ سعید ہمیں James Joyce کے اہم ناول as a Young Man A Portrait of the Artist کے کردار Stephen Daedalusکا دلوں پر نقش ہونے والا ایک بیان سناتا ہے، ’’ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کیا کروں گا اور کیا نہیں کروں گا۔ میں کبھی بھی ان کی خدمت نہیں کروں گا جن پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا ہو، چاہے وہ میرا گھرانہ ہو، میرا ملک ہو، یا میرا مذہب۔ اور میں اپنے لیے، فن کی کسی صنف یا زندگی کی کسی جہت کو اپنے آزادانہ اظہار کے لیئے اختیار کروں گا۔ اور اپنے دفاع کے لیئے وہ ہتھیار استعمال کروں گا جو میرے بس میں ہیں یعنی خاموشی، دربدری، حکمت ، اور طباعی۔ ایڈوڑد سعید ہمیں بتاتا ہے کہ اس ناول سے لے کر Ulysses تک اس کردار یا فن کار کا بنیادی عقیدہ، دانشورکی ٓزادی اظہار کی توثیق اور دفاع ہے۔

وہ دانشور اور قلم کار جو ادب برائے ادب اور جدیدیتجیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپ کر سماجی معاملات سے نظر چراتے ہیں، انہیں ہمیشہ جیمز جوائسؔ سے سبق سیکھنا ہوں گے۔ جس نے بلا شبہ ادب میں اظہارکے جدید اور حیران کُن بیانیے ایجاد اور استعمال تو کیے، لیکن اس کی ہر تحریر میں سماج اور شہریوں کے مسائل، بین السطور موجود رہتے ہیں۔ اس کے کردار ، استعمار اور مذہب کی شدت کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ہر تحریر میں ہمیں معاشرہ کے افتادگان کی داستان بھی سنائی دیتی ہے اور خود اپنوں کی مصالحت آمیز منافقت بھی۔

ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں قیامِ ِ پاکستان سے اب تک ایسے فنکار ، دانش ور، اور اہلِ قلم نصیب ہوئے ہیں جنہوں نے دانشوری کے منصب کو اپنا فرض اور عقیدہ جان کر نباہنے کی ، اور عروسِ وطن کو ہر حال میں نکھارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ ہیں جو فوجی آمریتوں کے خلاف، اقلیتوں پر ظلم کے خلاف ، پسماندہ عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کی خاطر، بے وجہ اور فضول جنگوں کے خلاف، آئین کی برتری کی حمایت میں، انسانی مساوات کے لیے، اور اہل ِ اقتدار کی نا عاقبت اندیش پالیسیوں کے خلاف، مسلسل آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔ ان میں سبطِ حسن اور فیض احمد سے لے کر حسن ناصر، حبیب جالب،جون ایلیا، احمد فراز، فہمیدہ ریاض، اکبر بگٹی، ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو، ولی خان ، اور سلمان تاثیر بھی شامل ہیں، اور عائشہؔ صدیقہ، عاقلؔ شاہ، عارفؔ جمال ، عاصمہ جہانگیر، حسینؔ حقانی، وسعتؔ اللہ خان، سرلؔ المائدہCyril Almeida، حسن مجتبیٰ، ناصر زیدی ، ناصر عباس، اوؔر ظہیر، فرزانہؔ حسن، طارق ؔفتح اور شانؔ تاثیر بھی۔ یہ بہر طور ایک نا مکمل فہرست ہے، اور آپ اس میں مسلسل اضافہ کر سکتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دانشوری کے منصب سے وفا کی ہے اور غداری کے تمام الزامات کے باوجود اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد اوراس میں شامل حوالوں سے استفادہ کرنے کے بعد آپ ہمیشہ جان لیں گے کہ غدار کون ہے اور وفادار کون ہے۔ پاکستان کے وفادار وہ دانشور ہیں جنہوں نے اپنا منصب نبھایا ہے، اور ہر سب و شتم او ر دشنام طرازی کو سہتے ہوئے ہر بار کہا ہے کہ:

وہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی

یہی داغ تھے جو سجا کے ہم ، سرِ بزمِ یار چلے گئے

نوٹ: اس تحریر کے ساتھ جو تصویر منسلک ہے وہ ممتاز مصور شاہد رسامؔ نے جیمز جوائس ؔ کے ایک اہم ناول کے ایک مکالمہ پر تخلیق کی ہے۔

2 Comments