تاریخ بالآخر ہمارے دروازے پر آن بیٹھی ہے اور بہت بے رحم انداز میں ہم سے ہماری غلطلیوں کا حساب مانگ رہی ہے۔ تاریخ نے حساب طلبی کا حصار اسقدر تنگ کردیا ہے کہ ہمارے حلقوم سے نکلنے والے بلند آہنگ نعرے معافی کی ممیاہٹ میں بدل گئے ہیں، ہم نے جھوٹ کی برف سے جتنے محل تعمیر کئے تھے حالات کی دھوپ سے پانی بنتے جارہے ہیں مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حقائق کو قبول کرنا ہماری چوائس نہیں مجبوری ہے سو ہم نے لفظوں کی شعبدہ بازی ترک نہیں کی بلکہ ابھی بھی اپنی ہر پسپائی کو محض چرب زبانی کے زور پر اپنی بہترین کامیابی ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
کیا ہم نے آج تک اپنی کوئی سمت مقرر کی ہے۔ سوائے اجتماعی تباہی کے ، اور یہ اجتماعی تباہی بھی تو ہماری بے سمتی کا ہی نتیجہ ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم بت شکن قوم ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پچھلے ستاون برس بت تراشنے اور انکی پرستش کرنے میں گزار دئیے اور یہ حرکت ہمارے عقل سے عاری جذباتی رویوں کی صریح علامت ہے۔
زمانہ جاہلیت میں انسان پر مسلط ہونے والے حکمران بہت آسانی کیساتھ یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے تھے کہ وہ دیوتاؤں یا خدا کے فرستادہ ہیں تاکہ لوگ ا نھیں خدا یا دیوتا کے خوف سے چیلنج نہ کریں، مگر جہاں جہاں لوگوں کو اس ڈرامے کی سمجھ آتی گئی وہاں وہاں سے دیوتاؤں اور خدا کی پشت پناہی کی متھ ختم ہوتی گئی اور اب جمہوری نظام کی وجہ سے امریکہ جیسے طاقتور ترین ملک کا صدر بھی اپنا حقِ حکمرانی خدا کی بجائے اپنے عوام سے مانگنے پر مجبور ہے۔
ہاں یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ حکومت کے حصول کیلئے اور بھی بہت سے گفتنی اور ناگفتنی طریقے اختیار کرتا ہے جن کا سارا کچا چٹھا بالآخر ہر تیس سال کے بعد عوام کے سامنے کھل جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو یہ صورت ہے کہ ہم ابھی تک ظلِ الہٰی کے تصور سے باہر نہیں نکل پائے۔ اول تو حکمرانوں کی خواہش ہوتی ہے عوام انہیں دیوتا مان لیں اور اگر بوجوہ وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھروہ کچھ مردہ اور زندہ لوگوں کو دیوتا یا ہیرو کے طور پر اسٹیبلش کرتے ہیں اور ان کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوتا کہ انہیں اپنی قلمرو میں بہت سے قلم فروش با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔
یہ لوگ ماضی کے مشاہیر کی ایسی دیوملائی شخصیت تخلیق کرتے ہیں کہ انکے انسان ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ اقبال، قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان جیسے مشاہیر تو بالکل سامنے کی مثالیں ہیں۔ یقین مانئے آج ان لوگوں کے بارے میں جو کچھ ہم تاریخ سمجھ کر پڑھتے ہیں اس میں آدھے سے بھی زیادہ ہماری عقیدت اور حکمرانوں کی خواہش پر لکھا گیا جھوٹ شامل ہے۔
حکمران طاقت اور دولت کی وجہ سے خود کسی اخلاقیات کے پابند نہیں ہوتے سو انہیں نقاب کے طور پر اخلاقیات کا پرچار کرنا پڑتا ہے۔ دراصل یہ ہیرو بھی انکے لئے ایک اخلاقی نقاب ہی ہوتے ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ انکی ذات سے ایسے تمام واقعات اور خصوصیات خارج کردی جائیں جن کی بنا پر یہ شک پڑسکتا ہو کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح انسان ہی تھے۔
حکمرانوں کو پتہ ہے کہ عوام جس قدر جاہل ہونگے وہ اسی قدر ما فوق الفطرت ہستیوں کو پسند کریں گے۔ سو درباری مورخوں سے مشاہیر کے ایسے خاکے لکھوائے جائیں جن میں انہیں ہر انسانی کمزوری سے ماورا ثابت کیا جائے بلکہ ہوسکے تو انکی ذات کے ساتھ ایسے عجیب وغریب واقعات اور خواب بھی منسوب کردئیے جائیں کہ جن سے یہ ظاہر ہو کہ ان شخصیات کو تائیدِ ایزدی حاصل تھی۔ ہمارے محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا شمار بھی ایسے ہی مورخوں میں ہوتا ہے، جو گذشتہ کئی سالوں سے تاریخ کے نام پر تاریخ کو مسخ کر تے چلے آ رہے ہیں۔
ہر ملک کے باسیوں کی طرح پاکستان میں رہنے والوں کو بھی باوجود بے شمار اذیتوں اور تکلیفوں کے اس ملک کے ساتھ ایک جذباتی اُنس ہے لیکن یہ کوئی مذہبی یا مافوق الفطرت مظہر نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو اپنی عقل و فکر سے ماورا یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ پاکستان کا قیام کوئی خدائی منصوبہ تھا۔ اس مقصد کے لئے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ پاکستان کا قیام ستائیسویں رمضان کی شب کو عمل میں آیا تھا۔
ممتاز مفتی نے اپنی کتاب، الکھ نگری ،میں پاکستان سے متعلق خوش فہمیوں پر مبنی مافوق الفطرت پیشین گوئیوں کا ایک طومار باندھا ہے ، جن میں سے ایک بھی آج تک پوری نہیں ہوسکی۔ اب خدا جانے ان پیشین گوئیوں کے پیچھے انکی معصوم ضعیف الاعتقادی کو دخل تھا یا کہ قدرت اللہ شہاب جیسے طاقتور بیوروکریٹ کو خوش کرنے کی خواہش کارفرما تھی ۔
سن 65ء کی جنگ میں تو سبز پوشوں کے بم دبوچنے کے افسانے تراشے گئے تاکہ لوگوں میں اس تاثر کو راسخ کیا جائے کہ اس ملک کو بچانا خدا کی اپنی کوئی ضرورت ہے۔ مگر افسوس کہ سترہ دن کی ناکام لڑائی کے بعد جب ہمارا صدر تاشقند میں لال بہادر شاستری کی شرائط مانے پر مجبور ہورہا تھا تو وہاں کوئی سبز پوش تو کیا کوئی سفید پوش بھی ہماری مدد کو نہیں آیا اور مذاکرات میں اگر مدد کی بھی تو ایک سرخ پوش ملک نے کہ جسے ہم نے ہمیشہ امریکی مفادات کی خاطر ، اسلام کی حفاظت کے نام پر اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔
دراصل اس طرح کے افسانے عوام کو جھوٹی جذباتیت میں مبتلا رکھنے کیلئے تراشے جاتے ہیں تاکہ انکی مذہبی عصبیت کو بھڑکا کر جہادی فضا کو ابھارا جائے اور یوں وہ اپنے انسانی حقوق کی قیمت پر خریدے گئے اسلحے کا حساب کتاب نہ پوچھ سکیں اور دوسری طرف وہ مذہبی جماعتوں کے غیر انسانی مفادات کیلئے نا صرف آنکھیں بند کرکے جہاد کے مقدس نام پر مرتے رہیں بلکہ انہیں چندہ بھی دیتے رہیں۔مگر انسانی خواہشات کے برعکس حالات کی اپنی منطق ہوتی ہے جو علت اور معلول کے اصول پر کام کرتی ہے۔
♦