آصف جاوید
اِ س میں کوئی شک نہیں کہ لباس کسی قوم کی نفسیاتی ، ذہنی، سماجی، ثقافتی اور معاشی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ لباس کے ظاہری انداز سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ کوئی قوم ترقّی کے کس دور سے گزر رہی ہے؟۔ کوئی قوم ارتقائی سفر میں تاریخ کے کِس مقام پر کھڑی ہے؟۔ کسی قوم کا اندازہ لگانے کے لئے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ لباس کے بارے میں اس قوم کی سوچ اور رویّہ کیا ہے؟ دیکھا گیا ہے کہ پسماندہ قومیں پرانے روایتی لباس کے ساتھ زیادہ جذباتی لگاو رکھتی ہیں۔ اپنے لباس کو باعثِ فخر سمجھتی ہیں، اور اسے اپنی قومی شناخت سے تعبیر کرتی ہیں۔ جاگیر دارانہ نظام کی نحوست یہ ہے کہ یہ نظام ، انسان کو صدّیوں سے ایک ہی جگہ اور ایک ہی حالت میں کھڑا ر کھے ہوئے ہے۔
سماجی سائنسدانوں کا اِس نظرئیے پر یقین ہے کہ پس ماندہ اور منجمد معاشروں کی ثقافتیں بھی پس ماندہ اور منجمد ہوتی ہیں۔ ہماری ثقافتوں پر پس ماندگی غالب ہے۔ ہماری سب ثقافتیں ،قبائلی اور جاگیردارانہ دور کی ہیں۔ اور ان کا ارتقا صدیوں سے رکا ہوا ہے۔ وڈیرہ اشرافیہ کی موج و مستی صرف اس ہی صورت میں جاری رہ سکتی ہے کہ وہ ثقافتوں اور سماجوں کو منجمد حالت میں رکھیں۔
قوم پرست دانشور چونکہ تعصّب زدگی کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا وہ ثقافتی لباس کو بھی مقدس بنا دیتےہیں۔ ثقافتی لباس متروک ہوچکے ہیں۔ یہ آج کی جدید دور کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ اب لباس اور ثقافتیں گلوبل ہورہی ہیں۔ آج کے سائنسی دور میں دنیا تیزی سے سمٹ رہی ہے۔ دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے بعد یونیورسل صنعتی و تجارتی معاشرہ وجود میں آچکا ہے۔ تعلیم، سائنس اور ترقّی یافتہ صنعتی ماحول کی برکات سے انسانی ذہن محدودیت کے دائرے سے نکل کر لا محدودیت کی طرف رواں دواں ہے۔
سندھ میں کل سندھی کلچر ڈے منایا گیا۔ سندھی کلچر ڈے منانا بری بات نہیں ہے، مگر کون سا کلچر؟ اور کس قیمت پر؟ معصوم لوگوں کو جاہل اور پسماندہ رکھ کر کلچر ڈے منانے کا صاف مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ سندھی قوم پرست جماعتیں اپنے معصوم سند ھی ووٹرز کو ، آگے لٹکائی گئی گاجر کے پیچھے دوڑانے کے سوا کچھ نہیں چاہتی ہیں ۔
غربت، جہالت، پسماندگی، لاقانونیت، انصاف کی عدم فراہمی، سماجی ناہمواریاں، ، تعلیم اور صحت کی نا مناسب اور ناگفتہ بہ صورتحال، ، جرائم، وڈیرہ شاہی، مذہبی دہشت گردی، رشوت ستانی، قبضہ مافیا، ڈاکو راج اور سیاسی مافیا، اور قبائلی جھگڑے اورغریب انسانوں کی تذلیل ، ان قوم پرستوں کے نزدیک کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اصل مسئلہ سندھی ٹوپی اور اجرک کی پاسداری ہے۔
مگر یہ قوم پرست ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی قوم معاشی طور پر تو نہایت پس ماندہ ہو ، لیکن اس کی ثقافت ترقی یافتہ ہو؟۔ پس ماندہ قوموں کی تو ہرچیز پس ماندہ ہوتی ہے۔ زبان، سماج، اخلاقیات، ثقافت سب پس ماندہ ہوتے ہیں۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔ سندھ کی پسماندگی، مفلوک الحالی ، بے حد و حساب غربت کی موجودگی میں سندھی ثقافت بھی پسماندہ ہوچکی ہے۔
سندھ پسماندہ ثقافت کے ساتھ کبھی بھی آگے ترقّی نہیں کر سکتا۔ سندھی قوم پرستوں کو سمجھنا چاہئے کہ معاشرتی ارتقاء میں کچھ بھی جامد نہیں رہتا ۔ اُسے ہر حال میں بدلنا ہوتا ہے۔ ہم لاشوں کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں ان کو دفن کرنا پڑتا ہے۔
سندھ کی اصل ثقافت یہ ہے کہ یہ اولیاء اکرام اور صوفیوں کی سرزمیں ہے۔ سندھ کی معلوم تاریخ پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ ہے۔ یہ برِّ صغیر کی عظیم تہذیب ہڑپّہ اور موہنجو ڈاڑو کی قابلِ فخر اور پُر امن تہذیب ہے۔ سندھ میں آج بھی انسان دوست ، روشن خیال لوگوں کی اکثریت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مذہبی نفرتیں سندھ کے کلچر کا حصّہ کبھی بھی نہیں تھیں۔ یہی سندھ کا فخر ہے، اور یہی سندھ کی پہچان ہے ۔ ۔ یہ سچّل سرمست اور شاہ لطیف بھٹائی ، اور شہباز قلندر جیسے اولیاء کی سرزمین ہے۔ یہ مرزا قلیچ بیگ، حسن علی آفندی اور مولا نا عبید اللہ سندھی جیسے روشن خیال مردانِ قلندر کی سرزمین ہے ۔
سندھ کی اصل اور بنیاد انسانیت سے محبت ہے۔ پانچ ہزار برس قبل یہاں کی ترقی یافتہ قوم نے ہر طرح کے زرعی اور صنعتی آلات بنائے تھے، سب کچھ تیار کیا تھا، لیکن ہتھیار نہیں بنائے تھے۔
سماجی حرکیات کے مطابق ثقافت فطرت اور وقت کے ساتھ ربط اور ہم آہنگی میں پروان چڑھتی ہے۔ تہذیب کے ترقی کرنے پر جہاں پسماندگی کو مات دی جاتی ہے، وہیں پر اس سے جنم لینے والی یا اس سے منسلک ثقافت کی بھی اصلاح اور ترمیم ہوتی رہتی ہے۔ ورنہ ستی بھی کلچر کا حصہ تھی، دس بارہ سال کی عمر میں بچوں کی شادی کر دینا، لڑکی کی پیدائش پر افسوس کا اظہار وغیرہ سبھی ثقافت ہیں۔ تو کیا ہم اس ہی جہالت کے حصار میں قید رہیں؟
سندھ کی اصل ثقافت یہ ہے کہ سندھ میں آج بھی روشن خیال، آزاد فکر ، انسان دوست سوچ رکھنے والوں کی تعداد نمایاں ہے۔ یہی سندھ کا فخر ہے، اور یہی سندھ کی پہچان ہے۔ رہ گئی سندھی ٹوپی اور سندھی اجرک کی بات تو لشکرِ جھنگوی اور سپاِہِ صحابہ کے دہشت گرد بھی سندھی ٹوپی پہنتے ہیں اور رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات میں خشک ذہن و فکر کے حامل افراد بھی سندھی ٹوپی اور اجرک اوڑھے نظر آتے ہیں۔
لباس تو فیشن اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل کرتا ، پاجامہ اور شیروانی پہنا کرتے تھے۔ سول سروس میں بھی یہی لباس پہنا جاتا تھا۔ اب یہی لوگ شلوار، قمیض، پینٹ شرٹ پہنتے ہیں، سوٹ ، پینٹ اور ٹائی پہنتے ہیں۔ ہماری والدہ گھر میں کاٹن کی ساڑھی پہنا کرتی تھیں، ہجرت کے بعد کراچی آئیں تو سندھی خواتین کی طرح قمیض شلوار پہننا شروع کردیا۔ میرے والد نے بھی پاجامے کی بجائے شلوار پہننا شروع کردیا۔
میرے بچپن کی بات ہے، کہ سر پر ٹوپی پہننا لازم تھا، سر کو ننگا رکھنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ میرے والد کے زمانے میں مکتب کے بچّوں کو لازمی گنجا کروا کر ٹوپیاں پہنوائی جاتی تھیں۔ مگر سب کچھ وقت کے ساتھ بدل گیا۔ آج کی ثقافت خوشحال معاشرہ، جدید طرز زندگی، مضبوط معیشت، تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوّت، فری مارکیٹ اکانومی کا نام ہے۔ ہمیں عمدہ معیارِ زندگی، تہذیب یافتہ سوسائٹی، اور معاشی مضبوطی کے حصول کی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اب تو سکھ بھی کڑے کرپان، کنگھی سے نکل کر نارمل حُلیہ اپنا رہے ہیں۔ بُدھ بھکشو بھی اپنا لباس ترک کرکے نارمل لباس زیبِ تن کرنے لگے ہیں۔ کم عمری کی شادیوں، اور مشترکہ خاندان کا رواج بھی ختم ہوچکا ہے۔ دنیا تیزی سے گلوبلائزیشن کی طرف جارہی ہے۔ علاقائی ثقافتیں دم توڑ رہی ہیں۔
سندھ اب کثیر الثقافت اور کثیر السّان خطّہ زمین ہے۔ سندھ کی ڈیموگرافی قیام پاکستان کے بعد بدل چکی ہے۔ اب سندھ میں مکرانی ، بلوچی، پٹھان،سرائیکی، پنجابی ، میمن ، گجراتی، اور انڈیا کے ہر شہر کے مہاجر کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ سندھ کی مشرکہ ثقافت ایک رنگ برنگے گُل دستے کی طرح ہے۔ جس میں ہر بھول اپنی بہار دکھاتا ہے۔ سندھ کے تمام مستقل باشندے کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق نہیں ہیں ۔ اس ہی برِّ صغیر کے لوگ ہیں۔
دریائے سندھ کا منبع ہمالیہ کے فلک بوس پہاڑ ہیں۔ دریائے سندھ ہندوستان سے بہتا ہوا پاکستان آتا ہے۔ اس میں دریائے کابل کا پانی بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ سرحد اور پنجاب سے گزرتا ہوا ڈیرہ غازی خان کے بعد سندھ میں داخل ہوتا ہے، پچھلے پانچ ہزار سالوں میں کئی دفعہ اپنے راستے تبدیل کرچکا ہے۔ دریائے سندھ کی ثقافت، صرف سندھی قوم پرستوں کی ثقافت نہیں ، یہ تو پورے برّصغیر کی ثقافت ہے۔
سندھ کی سر زمیں صرف سندھی قوم پرستوں کی زمین نہیں، یہ پورے برِّ صغیر کے لوگوں کی زمین ہے۔ ایک زمانے میں بمبئی بھی سندھ کا حصّہ تھا۔اب یہ صرف اجرک اور سندھی ٹوپی کی سرزمین نہیں رہا۔ بہتر تو یہ تھا، کہ سندھی ثقافت ڈے کو سندھ کی مشترکہ ثقافت کے دِن کے طور پر منا نے کے لئے سندھ میں بسنے والی تمام قومیتوں کو ساتھ ملا کر ان کو مساوی شہری تسلیم کرکے سندھ کی ترقّی کے عمل میں یکساں طور پر شریک کیا جاتا، اور سندھ سے امتیازی کوٹہ سسٹم کو ختم کر کے سب شہریوں کو مساوی حقوق دئے جاتے۔
آنرشِپ میں سب کو مساوی اور منصفانہ طور پر شریک کیا جاتا۔ ، ایک فرد اور ایک ووٹ کی بنیاد پر سندھ کی نئی ا نتخابی حلقہ بندیاں کرکے منصفانہ نمائندگی دے کر سندھ کی صوبائی پارلیمنٹ کو لسّانی گروپوں کی مخاصمت سے آزاد کروا کر سندھ کی اجتماعی ترقّی کا سوچا جاتا۔ سندھ واضح طور پر دو لسّانی صوبہ ہے۔ اردو اور سندھی ، سندھ کی دو رائج زبانیں ہیں ، اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر سندھ کی ترقّی نا ممکن ہے۔
سندھ میں قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں، سندھ کے قدیمی باشندوں اور قیامِ پاکستان کے بعد اندرون پاکستان سے بہتر روزگار کی تلاش میں سندھ میں قیام پذیر تمام لوگوں پر سندھ سے غربت و افلاس ، پسماندگی اور جہالت کے خاتمے کی عملی جدوجہد مذہبی فریضے جتنی اہم ہے۔ اس اہم فریضے کو انجام دئے بغیر سندھ میں حقیقی خوشحالی کی امید ایک خواب کے سِوا کچھ نہیں ہے۔
بہتر تھا کہ سندھی قوم پرست، سندھی کلچر ڈے کی بجائے یومِ پسماندگی منا کر جہالت اور پسماندگی کے خلاف جدوجہد کرنے کا عزم کرتے۔ ترقی اور ارتقا کے بارے میں منصوبہ سازی کرتے۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد
♦
2 Comments