علامہ ایاز نظامی
گذشتہ 1400 سالوں میں اسلام کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جیسے پیغمبر اسلام کے انتقال کے فوراً بعد خلافت کا مسئلہ، ارتداد کی تحریک، نت نئے مدّعیان نبوت کا سامنا، تسنن و تشیع کا اختلاف، خلافت کا ملوکیت میں تبدّل، فکر اعتزال، فلسفۂ یونان کا عربی میں ترجمہ کے باعث فکری بحران، تاتاری یلغار، صلیبی جنگیں، عرب و عجم کے اقتدار کی چپقلش، وغیرہ۔ مسلمانوں نے کہیں عسکری قوت کی بدولت، کہیں انتظامی جوڑ توڑ کے ذریعے، کہیں مصلحت و حکمت کے ذریعے اور کہیں دھونس اور دھاندلی کے ذریعے جیسے تیسے ان مشکل حالات کو بالآخر اپنے حق میں موڑ ہی لیا۔
جب مسلمانوں کو جزیرہ نما عرب سے باہر کی ثقافتوں کے ساتھ میل جول کا موقع میسر آیا، تو ایسے نئے نئے مسائل نے جنم لینا شروع کیا، جن کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی رہنمائی میسر نہیں تھی۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال تھی اس صورت حال میں علماء اسلام نے بدلتی ہوئی صورت حال کے تقاضوں کے مطابق اسلام میں ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی جسے “فقہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کیونکہ اس سے قبل اسلامی تعلیمات میں فقہ نامی کسی اصطلاح کا وجود نہیں تھا، لیکن اس زمانے کے فقہاء، علماء، اور محدثین نے اسلام کو جمود کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے اسلامی تعلیمات کی تشریحات کا رخ موڑتے ہوئے “کتاب و سنت” کے علاوہ “قیاس” اور “اجماع” کی نئی اصطلاحات کو متعارف کروایا اور اسلامی تعلیمات کو بانجھ ہونے سے بچانے کیلئے “کتاب و سنت” کے علاوہ “قیاس” اور “اجماع” کو اسلامی قانون سازی کے بنیادی مصادر میں شامل کر اسلام میں ایک نئی روح پھونک دی گئی۔
خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر اسلام کا مشہور قول ہے کہ “تركت فيكم ما ان تمسكتم به لن تضلوا بعدي كتاب الله وسنتي ” یعنی “میں تم میں اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے” پیغمبر اسلام کے اس قول کی روشنی میں بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ اسلام میں قانون سازی کیلئے قرآن و سنت کے علاوہ کسی اور مصدر کا اضافہ کیا جاسکے۔ لیکن اس زمانے کے علماء نے اس بات کا بخوبی ادراک کرلیا کہ قیاس اور اجماع کو شریعت کے مصادر میں جگہ دیئے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے اور اس رکاوٹ کو ختم کرنے کی خاطر قول رسول پر اضافہ بھی کرنا پڑ جائے (یا بالفاظ دیگر معروف تشریح کو تبدیل بھی کرنا پڑجائے) تو اسے گوارا کئے بغیر کوئی اور راستہ نہیں۔
اس زمانے کے علماء کرام نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسلام کو درپیش ایک بہت اہم چیلنج سے بخوبی نبٹتے ہوئے دانشمندانہ قدم اٹھایا۔ اس موقع پر ایسا بھی نہیں ہوا کہ فقہاء نے اصول شریعت میں قیاس اور اجماع کے اضافے کی ضرورت سمجھی اور بغیر کسی مزاحمت کے یہ اضافہ کر دیا گیا، بلکہ قیاس اور اجماع کو اصول شریعت میں اضافہ کرنے کے خلاف بھی آواز تو اٹھی، لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے کے مترادف کوئی اور چارہ بھی نہ تھا، اس لئے ان “بدعتی علماء” کے خلاف آواز زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکی اور ان بدعتی علماء کے فیصلے کو قبول عام کا درجہ حاصل ہوگیا، اور مخالفانہ آواز دم توڑ گئی۔
تمام مشکل مراحل سے بخوبی گذرنے والے اسلام کو آج جدیدیت کا چیلنچ درپیش ہے، اور یہ چیلنچ سابقہ تمام چیلنچز سے مشکل ترین چیلنچ ثابت ہوا ہے، یہ چیلنچ اس لئے مشکل نہیں ہے کہ یہ واقعتاً ایک مشکل چیلنج ہے بلکہ یہ چیلنچ اس لئے مشکل ترین ثابت ہو رہا ہے کہ آج اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کیلئے اہل علماء دستیاب نہیں ہیں، علماء اسلام کی اکثریت جمود پسند ہے اور جمود کو توڑے بغیر جدیدیت کے چیلنچ کا سامنا ممکن نہیں۔ آج عالم اسلام جدیدیت کے خوف میں مبتلا ہے اور جدیدیت، اسلام کیلئے ایک ڈراونے خواب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
مسلمان انتہائی فخر کے ساتھ دنیا کو بتاتے ہیں کہ جدید سائنس کی عمارت جن بنیادوں پر قائم ہے یہ بنیاد سائنس کو مسلمانوں نے فراہم کی، اور مغرب نے تمام تر سائنسی علوم مسلمانوں سے ہی حاصل کئے، مغرب کی تمام تر سائنسی ترقی کی ابتداء مسلمانوں سے ہی ماخوذ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ آپ کی ہی میراث ہے، اس عمارت کی بنیادیں آپ کی ہی فراہم کردہ ہیں، آپ نے ہی ان علوم کو بنیادی معیارات عطا کئے تھے، تو آج مسلمان اپنی اسی میراث کو اپنانے میں دنیا بھر سے پیچھے کیوں ہیں؟
جس عمارت کو بنیادیں آپ نے فراہم کیں اگر وہ عمارت آج ایک پرشکوہ نمونے میں ڈھل چکی ہے تو آپ کو اس عمارت سے کفر و بدعت کی بدبو کیوں آنے لگی؟ اگر گذشتہ کل اہل مغرب آپ سے سائنسی علوم مستعار لے رہے تھے تو یہ گذرا ہوا ماضی آپ کیلئے اس حد تک قابل فخر ہے کہ اسے بیان کئے بغیر آپ کی عظمت رفتہ کی داستان مکمل نہیں ہوتی، اور آج اگر آپ کو وہی علوم اہل مغرب سے حاصل کرنا پڑ رہے ہیں تو آپ شرمندگی، ہچکچاہٹ، جھجک، احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور آپ کی جھوٹی خود ساختہ عزت نفس مجروح ہونے لگتی ہے۔ آج اہل مغرب سے اپنی گم گشتہ میراث کو دوبارہ حاصل کرتے ہوئے آپ کو اپنا ایمان خطرے میں محسوس ہوتا ہے۔
یہ بڑی دلچسپ صورت حال ہے کہ ایک طرف عالم اسلام کے ممتاز علماء کرام قرآن سے سائنس کو ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور دوسری جانب کچھ ایسے علماء کرام بھی ہیں جو قرآن سے ہی سائنس کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور یہ صورت حال اس مغالطے کی وجہ سے ہے کہ مسلمانوں نے سائنس کے درست اور غلط ہونے کیلئے قرآن کو معیار بنا لیا ہے، حالانکہ سائنس کو درست ثابت کرنے کیلئے یا غلط ثابت کرنے کیلئے مسلمانوں کو سائنسی علوم میں مہارت اختیار کرنا ہوگی۔
اگر آج مسلمانوں کو چارلس ڈارون، آئن اسٹائن، اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات سے اتفاق نہیں ہے اور انہیں غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی صفوں میں انہی کے پائے کے سائنسدان پیدا کرنا ہوں گے نا کہ شیخ عبداللہ بن باز، شیخ طنطاوی،ذاکر نائک، ہارون یحییٰ۔
دنیا میں جو مذاہب تبدیلی کے چیلنج کا سامنا نہ کر پائے وہ اپنی افادیت یا اپنا وجود کھو بیٹھے، ماضی میں یہی صورت حال عیسائیت کو بھی درپیش ہوئی، اور عیسائیت کو پاپائیت کے شکنجے سے نجات نصیب ہوئی، اگر آج عالم اسلام کو مطلوبہ صلاحیت کے افراد میسر آ جائیں، تو جدیدیت کے گرداب سے نکلنا کچھ خاص مشکل نہیں، بلکہ امت مسلمہ کو تعلیم اور ترقی کی نئی راہیں دستیاب ہو سکتی ہیں، اور عالم اسلام، اقوام عالم کے درمیان اپنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
بشکریہ: جرات و تحقیق
One Comment