افغان مسئلہ اور نیا علاقائی سٹرٹیجک منظرنامہ 

aimal-250x300

ایمل خٹک 

ایک طرف علاقے میں ابھرتی ہوئی نئی سٹرٹیجک صورتحال کی وجہ سے افغان مسئلے کے حوالے سے کافی علاقائی اور بین الاقومی گہماگہمی دیکھنے میں آرہی ہے تو دوسری  طرف افغان مسلح اپوزیشن بھی اندرونی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے سیاسی انداز فکر اختیار کر رہی ہے ۔ حزب اسلامی حکمت یار گروپ نے کامیاب امن مذاکرات کے بعد صلح کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ تحریک طالبان بھی امن مذاکرات شروع کرنے پر غوروحوض اور اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے کیلئے افغانستان کے دیگر سیاسی اور سماجی گروپوں سے راہ و رسم بڑھا رہی ہے۔ حال ہی میں طالبان نے تین روزہ غیر رسمی ڈائیلاگ کیلئے افغان سول سوسائٹی کے ایک وفد کو قطر بلایا اور تین دن تک مختلف موضوعات پر کھل کر آپس میں تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان کیلئے افغان حکومت کا سخت موقف پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ جو زبانی جمع خرچ کی بجائے دہشت گردی کے مسلے پر ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے مسئلے پر افغانستان اور انڈیا کی بڑھتی ہوئی قربت پاکستان کیلئے درد سر بنتی جا رہی ہے۔  افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ مشرقی کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر طویل المدت کشیدگی پاکستان کی مفاد میں نہیں۔

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی شکل میں ایک سنہری موقع ضائع کردیا ہے جو پاکستان کو وہ سب کچھ دینے کیلئے تیار تھا جو ہم چاہتے تھے۔ پاکستان ایک دفعہ پھر افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے پشتون لیڈرشپ کو افغانستان بھیجنے کا سوچ رہی ہے۔  پاکستان کی انسداد دہشت گردی مہم دہشت گردی کے حوالے سے علاقائی اور عالمی تشویش اور تحفظات کو دور کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ بلا روک ٹوک نقل وحرکت کی وجہ سے اب تو کالعدم تنظیموں کے نمائندے کھلم کھلا ریلیاں اور مظاھرے منعقد کرنے کے علاوہ اسمبلیوں میں بھی جانے لگے ۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق  نیشنل ایکشن پلان اب ایک مذاق بن گیا ہے۔ 

 داخلی پریشر میں نسبتاً کمی اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد میاں نواز شریف اگلے تین ماہ میں امریکی یاترا کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ نواز حکومت کی جانب سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور نئی علاقائی صف بندی کی دعوے کئے جا رہے ہیں اور اسلام آباد کے بیجنگ اور ماسکو کے ساتھ بڑھتے ہوئے سٹرٹیجک تعلقات کی مثالیں دی جا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں پالیسی ساز نئی علاقائی صف بندی اور ماسکو میں اگلے ماہ افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی کانفرنس کے انعقاد کو بہت زیادہ اہمیت دے ر ہے ہیں۔ اور اسے افغانستان کے حوالے سے ابھرتے ہوئے امریکہ ۔انڈیا ۔افغانستان گٹھ جوڑ کے مقابل پیش کررہے ہیں ۔

ماسکو میں افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی اجلاس کے علاوہ حال ہی میں بھارت میں بھی ہارٹ آف ایشیا کے پراسس کا ایک اہم اجلاس ہوا ۔ جس سے اب افغان مسئلے میں بھارت کے ایک اہم فریق کے طور پر مسلمہ کردار سامنے آگیا۔ اسلام آباد کی حساسیت کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ بھارت کو افغان مسئلے میں ایک اہمفریق کے طور پر کردار دینے کی کوشش میں ہے ۔ اور اس سلسلے میں ماہ ستمبر میں افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی عمل میں پاکستان کی جگہ بھارت کو شامل کیا گیا ۔ یہ سہ فریقی عمل پہلے امریکہ ، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل تھا مگر اب امریکہ ، بھارت اور افغانستان شامل ہیں۔

مگر پاکستانی پالیسی ساز شاید اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ ایک دیرینہ مسئلے اور علاقائی امن اور استحکام میں بڑی رکاوٹ کی وجہ سے اکثر علاقائی اور عالمی طاقتیں اب افغان مسئلے کا فوری حل چاہتی ہیں کیونکہ بہت سی وجوہات کی بناء پر اب یہ مسئلہ ہر فریق کیلئے ایک بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں امن کے موضوع  پر امریکہ، روس اور چین کے درمیان کئی باتوں پر ہم آہنگی موجود ہے ۔

اس کے علاوہ روس اور چین دیگر علاقائی طاقتوں خاص کر ایران اور بھارت سے بہتر تعلقات اور افغان مسئلے کے حوالے سے ان کے کردار کی اہمیت کی وجہ سے اگلے کسی بھی مرحلے پر ان ممالک کو اس پراسس میں شامل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ علاقائی تفاہم کے بغیر افغان مسئلے کا پرامن اور مستقل حل ناممکن ہے ۔ ماضی قریب میں افغان مسئلے کے حوالے سے ایران ۔انڈیا اور روس کے مابین قریبی تعاون ، باہمی مشاورت اور رابطہ کاری رہی ہے۔ اس طرح چین اور امریکہ کا بھی بعض عالمی امور اور تجارتی اختلافات کے باوجود مسئلہ افغانستان کے حوالے سے عسکریت پسندی کے خاتمے پر ہم آہنگی موجود ہے۔ 

اسلام آباد کی سفارتی تنہائی کی اور وجوہات کے علاوہ بعض پڑوسی ممالک کے پاکستان پر علاقے میں عسکریت پسندی کی حمایت اور مدد کے الزامات بھی ہیں۔ اس طرح گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان نے بھی بعض پڑوسی ممالک پر اندرون ملک دہشت گردی کی حمایت کے الزامات لگانے شروع کردئیے ہیں۔  پاکستان کی جانب سے شدت اور بھرپور طریقے سے بعض پڑوسی ممالک پر دہشت گردی کے الزامات اور ثبوت پیش کرنے کے باوجود بین الاقوامی رائے عامہ پاکستان کے الزامات کو اس طرح خاطر میں نہیں لا رہی ہے جس طرح کہ پاکستان پر لگنے والے الزامات کو پذیرائی حاصل ہے ۔ 

جس کی حالیہ مثال ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جیسے اہم علاقائی فورم پر پہلی بار نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں سرگرم عمل دہشت گرد تنظیموں کے نام لیکر ان کی نشاندہی کی گئی ہے۔  اعلامیے میں  پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں مثلا  لشکر طیبہ اور جیش محمد یا پاکستان کی حمایت یافتہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک  کا ذکر پاکستان کی بڑی سفارتی ناکامی اور خطے میں اس کی سفارتی تنہائی کی بین ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ عسکریت پسندی کے حوالے سے ابھرتے علاقائی تفاہم کی غمازی بھی ہے۔ اعلامیے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ علاقائی ممالک دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں ہے۔ اور وہ دہشت گردی کو پاکستان  کے اندر اہم مسئلہ سمجھتے ہیں۔ 

 ماسکو اور اسلام آباد کے بڑھتے ہوئے سٹرٹیجک تعلقات اور نئی علاقائی صف بندی کے دعوےایک طرف مگر پاکستان اور روس کے مابین تعلقات میں پہلے کی نسبت بہتری ضرور آئی ہے اور یہ تعلقات اعتماد سازی کے مرحلے میں ہے۔ اور پاک۔روس تعلقات انتہائی سٹرٹیجک سطع تک پہنچنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ روس۔بھارت تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود دونوں کے تعلقات اب بھی پاکستان۔روس تعلقات سے بہتر ہے۔ 

یہ غلط فہمی کہ روس یا چین پاکستان کیلئے بھارت جیسے ملک سے تعلقات منقطع یا بگاڑے گا خارجہ تعلقات کے ٹھوس حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ روس اور چین کے انڈیا کے ساتھ مضبوط تجارتی رشتے ہیں اور روس اور انڈیا کے تعلقات میں اتارچڑھاوُ کے باوجود اب بھی سٹرٹیجک معاملات میں دونوں کے تعلقات روس۔ پاکستان تعلقات کی نسبت کافی مضبوط ہیں ۔ چین اور انڈیا تعلقات میں خاص کر بعض سٹرٹیجک معاملات میں مشاورت اور رابطہ کاری بہتر ہو رہی ہے ۔ چین آگے جا کر ایران اور انڈیا کو بھی اقتصادی راہداری کے ساتھ جوڑنے کا خواہاں ہے ۔ 

علاقے میں جاری نئے گریٹ گیم میں امن اور  استحکام کی قوتوں کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے۔ کیونکہ قدرتی وسائل اور عالمی منڈیوں تک پہنچنے کیلئے سستے اور مختصر ترین تجارتی راھداریوں اور شاہراوں کی ترقی اور ان پر محفوظ نقل و حرکت  کیلئے خطے میں امن اور استحکام بنیادی شرط ہے ۔ آہستہ آہستہ سارے ممالک سڑکوں ، ریل اور آبی اور فضائی راستوں سے مزید جوڑے جائینگے۔ سی پیک چین کے ایک گرینڈ منصوبے کا حصہ ہے جو صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ چین افغانستان ، ایران اور انڈیا کو بھی آہستہ آہستہ اس سے منسلک کر ے گا ۔

افغانستان سے مذاکرات شروع ہیں۔ ایران نے پہلے ہی اپنی رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ انڈیا مناسب وقت پر شامل ہوگا۔ علاقے میں کشیدگی اور تناؤ اب کسی کے مفاد میں نہیں۔  اور علاقائی کشیدگی اور تناؤ کے مضر اثرات اب ناقابل برداشت اور خاص کر معیشت پر بوجھ بن رہے ہیں۔ جو تھوڑی بہت مشکلات پیدا کرنے والے ممالک ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ راہ راست پر آجائینگے یا لائے جائینگے۔ جوں جوں علاقائی ممالک اقتصادی اور تجارتی رشتوں میں بندھے جائینگے اور ان کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھے گا تو کشیدگی اور تناؤ کی بنیادیں کمزور ہوتی جائیں گی اور علاقائی تعاون بڑھے گا۔  

اس صورتحال میں جس بھی ملک نے اس نئے گریٹ گیم کی ماھیت اور ضروریات کے مطابق پالیسیاں بنائی اور وقت کے تقاضوں کے مطابق مطابقت پیدا کی وہ فائدے میں رہے گا اور جس نے بھی مزاحمت کی یا اگر مگر سے کام لیا وہ گھاٹے میں ر ہے گا۔ جہاں تک پاکستان کی موجودہ پالیسیوں کا تعلق ہے وہ بھی موجودہ شکل میں نہیں رہ سکتی ۔ علاقائی کشیدگی زیادہ دیر نہیں چل سکتی نہ توہماری معیشت اس کی متحمل ہوسکتی ہے اور نہ عالمی قوتیں ہمیں ان کی پالیسیوں کی راہ میں زیادہ عرصہ حائل رہنے دیں گی ۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں کے مصداق پس پردہ بہت سی باتیں ہو رہی ہے۔

 چین امریکہ سے زیادہ شاطر اور چالاک کھلاڑی ہے۔ وہ بغیر کسی ہلے گلے کے اور خاموشی سے کام کرنے والا کھلاڑی ہے ۔ چین خاموش نہیں بیٹھا ہے اور نہ اپنا الو سیدھا کئے بغیر خاموش بیٹھے گا۔  خطے میں جغرافیائی تبدیلیوں کی باتیں بھی ہو رہی ہے مگر زیادہ رحجان خطے کے ممالک کا آپس میں جوڑنے اور خام مال ، مصنوعات اور انسانی وسائل کی آزادانہ نقل وحرکت کی طرف ہے۔ نئی گریٹ گیم بنیوں کی گیم ہے جو اقتصادی تعاون کو فروغ دینے اور منڈیوں کو جوڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔  ۔ تمام ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی شاہراوں اور راھداریوں سے جوڑا جائیگا ۔ اور علاقائی تعاون کو فروغ دیا جائیگا۔ جس سے آہستہ آہستہ سرحدوں کی اہمیت کم ہوتی جائیگی اور آزادانہ نقل و حرکت کو فروغ ملے گا۔ 

سی پیک کے حوالے سے چھوٹے صوبوں کی شکایات اور تحفظات کا ازالہ کرنے میں ناکامی کی وجہ ملک میں احساس محرومی  ، بے چینی اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ اور عوام احتجاج کرنے پر مجبور ہیں ۔ احساس محرومی بڑھنے اور جائز حقوق نہ ملنے کی وجہ سے مرکز گریز قوتیں فعال ہو رہی ہیں ۔ 

سی پیک یا چین کا گرینڈ پلان جب تک مکمل عملی شکل اختیار نہیں کرتا عالمی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑخانیاں کر تی رہیں گی لیکن جب کچھ عملی شکل اختیار کرتا ہوا نظر آئے گا تو عالمی اجارہ دار کمپنیاں اس سے مستفید ہونے کی کوشش کریں گی اور اب چین میں مصروف بہت سی مغربی کمپنیاں نئے کاروبار امکانات سے فائدہ اٹھانے کیلئے پر تول رہی ہیں۔   

ہاں عبوری دور میں ایک دوسرے کو راہ راست پر لانے یا پرانی ذھنیت اور رقابتیں کچھ عرصہ ایک دوسرے کیلئے درد سر پیدا کرنے کیلئے کچھ سیاسی قوتوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔  اور علاقے میں کشیدگی اور تناؤ کی فضا کچھ عرصہ رہیگی ۔ 

مسئلہ افغانستان خصوصا عسکریت پسندی ان عالمی تجارتی منصوبوں میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے اور اب ہر طرف سے ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کی دباؤ پر طالبان نے افغانستان میں اہم تجارتی اور اقتصادی منصوبوں کی حمایت اور حفاظت کی ذمہ داری کا اعلان کیا ہے۔ اور اب افغان امن مذاکرات کےلئے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اور افغان مسئلے کے حوالے سے ادھر اُدھر کانفرنسیں اس سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں ۔

اگرچہ افغان مسئلے کے حوالے سے کسی فوری پیش رفت کا امکان تو نہیں مگر کوششوں میں تیزی آرہی ہے اور آہستہ آہستہ مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بن رہا ہے۔ کیونکہ نئے حالات نئے انداز فکر اور نئی صف بندیوں کی متقاضی ہیں۔ جس نے حالات اور امکانات کے ساتھ مطابقت پیدا کی اور اس حوالے سے اپنے آپ کو تبدیل کیا ہے تو کامیابی اس کی قدم چومے گی، نہیں تو تباہی اور بربادی اس کی مقدر بنے گی۔

 پاکستان سفارتی تنہائی سے نکلنے کیلئے ایک طرف مغربی ممالک کے مطالبات کے سلسلے میں نرمی دکھا ر ہا ہے اور دوسری طرف داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کے حوالے سے زبردست اندرونی بحث و مباحثہ جاری ہے ۔  افغان مسئلے پر کچھ نہ کچھ مراعات دینے کی بات ہو رہی ہے۔ 

اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر پاکستان  افغان امن مذاکرات کے حوالے سے ملے جلے اشارے دے رہا ہے۔ کچھ حلقے امن مذاکرات کو بحال کرنے اور کچھ افغان حکومت کی سخت موقف اور انڈیا سے اس کے بڑھتے ہوئے سٹرٹیجک تعلقات کی روشنی میں طالبان کی امداد بڑھانے کی باتیں کر ر ہے ہیں۔  مگر موجودہ عالمی اور علاقائی تناظر میں طالبان پر داؤ لگانا گھاٹے کا سودا ہے۔ مگر جب تک کنویں سے کتا نہیں نکالا جاتا یعنی عسکریت پسندی جس شکل میں بھی ہے کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جاتا بیشک جتنا پانی بھی نکالیں گند صاف نہیں ہوگا اور پانی میں بدبو ر رہے گی۔

ایک تجزیہ نگار کے بقول پاکستان کی موجودہ بین الاقوامی اور علاقائی تنہائی کی کنجی اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہے نہ کہ واشنگٹن ، دہلی یا کابل ، پاکستانی پالیسی ساز اداروں کو پارلیمنٹ کی مشاورت سے داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں تجدید نظر کی ضرورت ہے۔ 

One Comment