پاکستان میں بنیاد پرستی اور روشن خیالی کی کشمکش

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید

پاکستان میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی قوّتیں روزِ اوّل سے ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آراءرہی ہیں۔ دونوں قوّتیں ایک دوسرے کی مخالف اور متضاد نظریات کی حامل ہیں۔دائیں بازو کی قوّتیں عموماً بنیاد پرستی اور ملّائیت کےمکتب ِفکر کی نمائندگی کرتی ہیں، جبکہ بائیں بازو کی قوّتیں روشن خیالی اور جدیدیت  کےمکتبِ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ بنیاد پرست ملک کو پیچھے کی طرف دھکیل کر 1400سال قبل  کے بدوی دور میں لے جانا چاہتے ہیں، جبکہ روشن خیال ملک کو آگے کی طرف  دھکیل کر   21ویں صدّی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ  برِّ صغیر کے مسلمانوں میں روشن خیالی کا تصوّر سب سے پہلے جناب سر سیّد احمد خان صاحب  نے پیش کیا تھا ۔  برِّ صغیرمیں سر سیّد کو جدید دنیا کے نئے دور کا مجدّداورمسلمانوں کی ترقّی کا امام سمجھا جاتا ہے۔

روشن خیالی کی مختلف تعریفیں پیش کی جاتی رہی ہیں۔  علماءِ قدیم اور بنیاد پرستوں کے مطابق روشن خیالی دراصل  بے ہنگم مادر پدر آزادی ، بے راہ روی اور  عریانیت کا دوسرا نام ہے۔ جبکہ علماءِ جدید اور روشن خیال مفکّرین کے نزدیک  ایک زندہ  اور متحرّک معاشرے کو وقت کی رفتار کے مطابق چلنے اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے   کے عمل کو روشن خیالی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

علماءِ جدید روشن خیالی کو ایک  ایسی ثقافتی تحریک سے بھی تعبیر کرتے ہیں جس میں بنیادی عقیدہ عقلِ انسانی کی کسوٹی پر معاشرتی مسائل کو جانچنا اور ان کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے جس کو عرف،ِعام میں ہم “تنقیدی سوچاور منطقی اندازِ فکر کہتے ہیں۔ سادہ زبان میں آپ یہ سمجھ لیں کہ اگر جو بات عقل اور شعور سے متصادم ہورہی ہو،اس کو قطعاً نہ مانا جائے ، چاہے اس بات کو کہنے والا آپ کا مذہبی پیشوا یعنی  عالم ِ دین ہی کیوں نہ ہو۔

مزید یہ کہ معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے  معاشرے کے ہر فرد کا مل جل کر  یکساں طور پرکام کرنا نہایت ضروری ہے، اور مذہب  ہر انسان کا انفرادی معاملہ ہےاس کا معاشرے کی اجتماعی زندگی سے کوئی تعلّق نہیں ہونا چاہئے۔مزید یہ کہ انسانی معاشرے کے لئے انسانی نفسیات پر مبنی انسان ہی کے بنائے ہوئے اصول و ضابطے  اور قوانین ہونے چاہئے ہیں، نہ کہ انسانی معاشرے میں مذہبی عقائد کی بنیاد پر تشکیل شدہ الہامی  اصول ، ضابطے اور قوانین۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اقوامِ عالم میں اس وقت مسلمان سب سے زیادہ  قدامت پرست اور بنیاد پرست رویّوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر  آتے ہیں۔کیاآپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ اپنے اس رویّے کی وجہ سے دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان اسقدر ذلّت کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟؟؟؟۔ پوری دنیا ترقّی کررہی ہے اور مسلمان ترقّی کی گاڑی کو ہینڈ بریک لگا کر بیٹھے ہوئے  ہیں۔ روشن خیالی کوئی گناہ نہیں۔ کوئی بے ہنگم آزادی اور اخلاق سے گری ہوئی طرزِ زندگی نہیں۔ بلکہ یہ تو ایک مہذّب طرز فکر اور طرزِ زندگی ہے جس میں معاشرے کی تمام اکائیاں وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر قدم بہ قدم چلتی ہیں۔

معاشرے کا وقت کی رفتار (معاشرتی مومنٹم) سے ہم آہنگ ہونا ہی روشن خیالی کہلاتا ہے۔ روشن خیالی کسی گناہ اور ثواب سے ماوراء طرز فکر اور طرزِ زندگی کا نام ہے۔ اسلام جو کہ بلاشبہ ایک آفاقی مذہب  ہے، اس کی بنیاد ہی روشن خیالی پر قائم ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جو کہ ہر زماں اور مکاں کے لئے ہے، ہر دور کے لئے ہے۔ ۔ اسلام سے پہلے جتنے بھی الہامی  مذاہب آئے وہ سب روشن خیال  مذاہب تھے۔

تمام انبیاء روشن خیالی کی تعلیمات لے کر اس دنیا میں آئے۔ خود نبی کریم  روشن خیالی کے نفاذ کے لئے معبوث کئے گئے تھے،اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ  اگر رسولِ مقبول روشن خیال نہ ہوتے تو آج سے 1400 سال پہلے ایک تاریکی میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو کیوں کر ایک مہذّب اور شائستہ معاشرے میں تبدیل کرتے؟۔

واضح رہے کہ جب بھی علم کا فروغ ہوتا ہے تو تو علم کی روشنی پھیلتی ہے۔ اور جب یہ علم ایک عام آدمی کی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو یہ علم اس کو شعور بخشتا ہے۔ اور یہی شعور انسان کی فطری جبلّتوں کو مہمیز عطا کرتا ہے۔ اور معاشرے میں ایڈیسن، آئن اسٹائن، البیرونی اور ابن الہیثم جیسے عالم پیدا ہوتےہیں  جو کہ معاشرے کو اپنی حکمت اور دانائی سے   نِت نئے افکار و نظریات اور نئی ایجادات سے نوازتے ہیں جو کہ بنی نوع انسان کی ترقّی اور فلاح و بہبود کا سبب بنتے ہیں۔

نئے خیالات اور نئے فلسفے معاشرتی جمود کو توڑ کر معاشرے کو اگلی منزل کی طرف دھکیلتے ہے، جو کہ دراصل معاشرے کو ترقّی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئےفنّی اصطلاح میں ایک ٹارک مہیّا کرتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ رہی ہے کہ نیم تعلیم یافتہ پیشواوں نے ہمیشہ نئے خیالات، نئے فلسفے اور نئی ایجادات کی بھر پور مخالفت کی۔ کیمرہ کی ایجاد پر تصویر کو حرام قرار دیا گیا۔ لاوڈ اسپیکر کو شیطان کی آواز قراردیا گیا۔

انتقالِ خون اور اعضاء کی پیوند کاری کو تو ابھی پچھلے  30 سال پہلے تک حرام کے فتووں  سے باہر نہیں نکالا جا سکا تھا۔ پولیو کے قطرے پلانے کی سرکاری مہم تو اس وقت بھی فتووں اور مخالفت کا شکار ہے۔ پولیو ورکرز کو گولیاں مار کر قتل کرنے کی واداتیں پورے ملک میں عام ہیں۔ قدامت پرستی اور جمود ملّائیت کی روح ہے، جبکہ تلاش و جستجو جس کو ہم ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کہتے ہیں، روشن خیالی کی روح ہے۔

ملّائیت میں معاشرتی مسائل کو کو خدا کی مرضی کا تابع کرکے ان مسائل کا حل دعا اور عبادتوں میں تلاش کیا جاتا ہے۔ جبکہ روشن خیالی میں انسان کی فطری اور جبلّتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر معاشرتی مسائل کا سائنسی حل تلاش کیا جاتا ہے۔ روشن خیالی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے دین ، مذہب، عقیدہ اور عبادات کو چھوڑ دیں بلکہ روشن خیالی کا صاف اور واضح مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے دین ، مذہب، عقیدہ اور عبادات کو موجودہ دور  کے تقاضوں اور اس کے مومنٹم سے ہم آہنگ کرلیں۔

اگر آپ ایسا نہیں کریں گے اور بنیاد پرستی ، ضد ، انا اور ہٹ دھرمی پر قائم رہیں گے تو پھر جان لیں کہ آپ اپنے دین ، مذہب، عقیدہ کی نہ صرف نفی کررہے ہیں ، بلکہ آپ اقوامِ عالم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آپ کا مذہب اور عقائد فرسودہ اور ناکارہ ہیں، ان میں جدید دور کے تقاضوں سے نمٹنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ اس وقت مذہب ِ اسلام کے پیروکاروں کو ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ  انکا مذہب دور جدید کے تقاضوں سے اپنے آپ کو نہ صرف ہم آہنگ کرسکتا ہے بلکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور ہر دورکے لئے کامیاب ہے۔

کیا کبھی مسلمانوں نے سوچا کہ ہم کیوں زمانے کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے مخالف ہیں؟ہم معاشرتی مسائل کا حل عقل و خرِد میں کیوں تلاش نہیں کرتے ؟ مثال کے طور پرہمارے علماء کیوں انسان کے چاند کو تسخیر کرنےاور مرّیخ پر زندگی کے آثار کی تلاش کے عمل کی جانچ کی مخالفت میں فتوے دیتے  ہیں؟ ہمارے علماء نے کیوں کلوننگ کوحرام قرار دیا ہوا ہے؟ ہمارے علماء  کیوں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو حرام کی اولاد قرار دیتے ہیں؟ہمارے علماء کیوں آبادی پر کنٹرول کے لئے  فیملی پلاننگ کو حرام قرار دیتے ہیں؟ ہمارے علماء کیوں بعد از مرگ انسانی جسم کے اعضاء کی جاں بلب مریضوں کو دوسری زندگی دینے کے عمل کے مخالف ہیں؟ ہمارے علماء کیوں ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا بالجبر کے مقدمے میں مستند شہادت تسلیم کرنے پر تیّار نہیں ہیں؟

ہم کیوں آج بھی ایک ہی ملک میں دو دو عیدیں صرف اس وجہ سے مناتے ہیں کہ ہمارے علماء کو ننگی آنکھوں سے چاند نظر نہیں آتا؟ جبکہ ہم علم فلکیات کی مدد سے آگے دو سو سالوں تک چاند کی تقویم کا ہنر جانتے ہیں۔ ہمارے علماء کیوں رحمِ مادر میں بچّے کی جنس کی تشخیص  کے میڈیکل ڈائیگنوسٹک   جانچ کو قانون ِ قدرت میں مداخلت اور اللہّ تعالیکی اتھارٹی کو چیلنج گردانتے ہیں؟  ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے بنیاد پرست  علماء  اکرام ہمیشہ جدید ٹیکنالوجی کے خلاف  فتوے  دیتے رہے ہیں۔  اور پھر بعد میں بڑی بے شرمی کے ساتھ ان ایجادات کو اپناتے بھی رہے ہیں۔

اس تناظر میں ہم  یہاں اپنے بنیاد پرست   دوستوں سے ایک سوال پوچھنے  میں حق بجانب ہیں کہکیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان  اسلام کی آفاقیت اور ہر دور کا مذہب ہونے کے دعویکی سچّائی کو ثابت کرنے کے لئے اہلِ دنیا کے سامنے  آج 1400 سال بعد بھی ،اب تک  کوئی رول ماڈِل،کوئی ٹھوس مِثال ، کوئی ٹھوس ثبوت کیوں پیش نہ کرسکےہیں؟؟”  وہ کیا  نفسیاتی شرمساری ہے جو کہ ہم کو حالتِ جمود سے باہر نکلنے  نہیں دیتی ہے؟؟ ہم کیوں اپنی حالت بدلنے پر تیّار نہیں ہیں؟؟؟؟ کیا ہمارے اس رویّے سے خدا ہماری حالت بدل دے گا؟؟

ہماری بنیاد پرستی نے ہمیں قدامت پرستی اور روایت پرستی کے مہیب اندھیروں میں دھکیلا ہوا ہے، ہم پر لازم ہے کہ ہمیں روشن خیالی کی مخالفت ترک کرکے اندھیروں سے نکل کر اجالوں میں آنا ہوگا۔ ہمیں ذلّت کی پست گہرائیوں سے نکل کر خوشحالی کی  عظمتوں کاسفر کرنا ہوگا،  ورنہ ہماری داستان  تک نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔۔۔وما علینا الالبلاغ

Comments are closed.