جس طرح ہمارے ‘نان اسٹیٹ ایکڑز‘ دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اوربطور پراکسی استعمال ہوتےہیں۔ اسی طرح ‘نان ‘اسٹیٹ تجزیہ کار، صحافی‘ اسٹیبلش منٹ کی آرا اور ارادوں کا اظہارکرتے ہیں۔ نصف صدی سے زائد ہمارا ریاستی منترا یہ ہے، “اس خطے میں مخصوص حالات ہیں۔ ملک کی سلامتی اوربقا کومستقل طور خطرات لاحق ہیں“۔
ابھی چند دن پہلے ائرچیف صاحب نے نیوی کی ایک تقریب میں وہی 70 سال پرانا مقولا دہرایا ہے، ‘پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے‘۔ ہونا تو یہ چاہئے ہمیں اس پر شرم آنی چاہئے کہ ہم 70 سال میں اپنے ہمسایہ ممالک اور ورلڈ پاورز کے ساتھ پرامن رہنے کا بندوبست نہیں کرسکے۔
یہ تو ہماری قومی نالائقی اور نااہلی تصور ہونی چاہئے، ہماری ڈھٹائی یہ ہے، ہم نے اسے اپنا فخر اور جیون بنا لیا ہے۔ اسے بطور ‘مستقل حقیقت‘ تسلیم کرلیا ہے۔ بلکہ ہمیں ‘نازک دور والی کیفیت‘ سے محبت ہوچکی ہے۔
جو اس ‘نازک دور‘ سے نکلنے کی بات کرے، اس کی حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے، وہ ‘مودی کایار‘ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ‘نازک دور‘ ایک ادارے کو دودھ، مکھن فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مذکورہ ادارہ موٹے سے موٹا ہوتا گیا ہے۔ اور باقی ادارے سکڑتے گے ہیں۔ پاکستان ‘اہم جغرافیائی خطے‘ میں واقع ہے۔۔
یہ کیا بکواس ہے، جو ہروقت دہرائی جاتی ہے۔ اس جغرافیائی خطے کی اہمیت نے کیا ہمیں مستقل تنازعے،علاقائی دشمنیاں، اور ورلڈ پاورزکی مداخلت کا میدان بنائے رکھنا ہے؟ اگر اہم جغرافیائی خطہ ہے، تو ہمیں اس کے فائدے کیوں میسر نہیں؟ ہمارے لئے امن اور ترقی کے راستے کیوں نہیں کھل سکتے۔
اس جغرافیائی اہمیت کا فائدہ ایک ادارے کوہی کیوں ملتا ہے۔جس سے اس کا مستقل اثررسوخ اور پاور بڑھتی رہتی ہے۔ ہماری اسٹیبلش منٹ کیوں مصر رہتی ہے۔ اور حالات کو اس نہج پرہی رکھا جائے، کہ ‘مستقل خطرات‘ والی پوزیشن قائم دائم رہے۔ اس کا انداز لڑاکا کیوں ہوتا ہے۔
انفرادی معاملات ہوں یا قوموں کی سطح پر، لڑاکا انداز تنازعات کوکبھی حل نہیں ہونے دے سکتا۔ آپ کو ڈپلومیٹک ہونا ہوتا ہے۔ مصالحتی، نرم انداز اپنانا ہوتا ہے، بات چیت کرنی ہوتی ہے اور عمومی طور پر دونوں کے مفادات کو لیتے ہوئے کسی مصالحتی نقطے پر پہنچنا ہوتا ہے۔
یہ رستہ ہماری اسٹیبلش منٹ بند کردیتی ہے۔ حالانکہ اس میں مداخلت کا اسے کوئی آئینی حق نہیں۔ یہ عوام اور ان کی منتخب پارلیمنٹ کا ہے۔ لیکن اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ساتھ بدمعاشی کا ماحول بنائے رکھا جاتا ہے۔
پاکستان کی سیکورٹی اور دفاع کے مفادات کا تحفظ عوام کی ذمہ داری ہے، کورکمانڈروں کی نہیں۔ وہ ریاست کے ملازم ہیں۔ ان کا کام عوام کی بنائی گئی پالیسیوں پرعمل اور سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ وہ ریاست کے فیصلہ ساز ادارے بن چکے ہیں۔
اگر فوج پر تنقید کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ فوج کو کمزور کرنے کی کوشش ہے اگر فوج کمزور ہو گی تو ریاست گر سکتی ہے۔ہمارے ہاں ‘پرو اسٹیبلش منٹ اور پرو ریاست‘ حلقوں کی طرف سے یہ اکیڈیمک سوال اٹھایا جاتا ہے۔ یہ سوال بھی اتنا سادہ نگاہی کا نہیں ہے۔ جی ہاں کمزور فوج ہو تو ریاست گرسکتی ہے۔
لیکن دنیا کی طاقت ور ترین فوج بھی ریاست کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ فوج کو طاقت وررکھنے والوں کی طرف سے یہ دلیل بھی دی جاتی ہے، کہ عراق، لیبیا، شام وغیرہ کی مثال دیکھیں۔ فوج کے کمزور ہونے سے ان کا کیا حشر ہوا ہے۔
یہ دلیل بھی غلط ہے۔ عراق، لیبیا، شام اس لئے گرے ہیں۔ کہ ان کی صرف فوج ہی طاقت ور تھی۔۔۔باقی سب ادارے کمزور تھے۔ ان تینوں ملکوں پر براہ راست فوج قابض تھی۔ صدام فوجی تھا، قذافی فوجی تھا، بشارالاسد کا باپ فوجی تھا۔ اور یہ تینوں فوجی ریاستیں تھی۔ وہاں جمہوریت اور سویلین حکومتیں نہیں تھی۔
پاکستان خود ایک دفعہ ٹوٹ چکا ہے، جب فوج حکمران بھی تھی اور ہمیشہ کی طرح ‘ناقابل تسخیر‘ تھی۔ ہماری فوج ‘فاتح 65 کی جنگ‘ تھی۔ اس وقت بھی جرنیل آج کی طرح کے ‘خالد بن ولید‘ ہی تھے۔ لیکن ملک ٹوٹ گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے، کہ ریاست کی بقا کے لئے صرف فوج کا کمزور ہونا یا طاقت ورہونا کافی نہیں۔
تکنیکی طور پریہ بات درست ہے کہ کمزور فوج سے ریاست کمزور ہوگی۔ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں اور عوام نے کبھی بھی خواہش نہیں کی کہ ہمارا دفاعی ادارہ کمزور ہو۔ مسئلہ یہ ہے ہی نہیں۔ ریاستوں کے ٹوٹنے میں بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ کوئی ایک عنصر اگر غالب ہو جائے تو ریاست ٹوٹ سکتی ہے، چاہے فوجی ادارہ کتنا ہی منظم اور طاقت ور کیوں نہ ہو۔ فوجی ادارہ کسی خلا پرکھٹرا نہیں ہوتا۔ وہییں اسی زمین پر اور اپنے لوگوں کے اندر بنا ہوتا ہے۔
ریاست نہ فوج بناتی ہے، نہ اسے اکیلے قائم رکھ سکتی ہے۔ وہ پھر جبر اور استبداد کی ریاست ہوگی۔ جمہوری اور وفاقی یونٹوں کے برابری کے اصول پر نہیں ہوگی۔ شام، عراق اور لیبیا فوجی آمروں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر وہ جمہوری اور عوام کی خواہشات اور شرکت سے ریاستیں بنی ہوتی، تو کوئی ان کو یوں توڑ نہ سکتا۔
مختصراً ریاست وہی مستحکم طاقت ور ہوگی، جہاں جمہوری حکمرانی ہوگی، عوام شریک اقتدار ہونگے، ان کی بہبود، ہمہ گیر ترقی کا خیال رکھا جائے گا۔ قومیتوں اور شہریوں سے مساویانہ سلوک ہوگا۔ صرف فوج کو پالنا۔۔۔سفید ہاتھی پالنا ہے۔ جس کے پاوں تلے اپنی ہی ریاست روند ی جاتی ہے۔
♥