ڈاکٹر پرویز پروازی
پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹینٹ جنرل عبدالمجید ملک کی داستان حیات ’’ ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ کے عنوان سے سنگ میل پبلیکشنز لاہور کی جانب سے 2015 میں شائع ہوئی ہے۔
جنرل عبدالمجید ملک نے اپنا فوجی سفر سپاہی کلرک کی حیثیت سے شروع کیا اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچ کر اپنے سے جونئیر جنرل، جنرل ضیاء الحق کے چیف آف سٹاف مقرر کیے جانے پر اپنی مرضی سے مستعفی ہوئے۔ مستعفی ہوتے وقت آپ کور کمانڈر پشاور کے وقیع عہدے پر کام کر رہے تھے ۔ریٹائر ہونے کے بعد بھٹو نے آپ کو مراکش میں پاکستانی سفیر کے عہدے پر سرفراز کیا جسے آپ نے جنرل این ایم رضا کی تنبیہہ پر قبول کیا کہ ’’بیوقوف نہ بنو۔ اس ملک سے جتنی جلدی نکل سکتے ہو نکل جاؤورنہ تمھاری اور تمھارے خاندان کی اور دوستوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے گی‘‘۔ ( ہم بھی وہاں موجود تھے صفحہ 150
وہاں سے آپ دو سال بعد فارغ ہوئے اور واپس آکر اپنے وطن چکوال سے قومی اسمبلی کے رکن چنے گئے ۔ آپ اپنے حلقہ انتخاب سے پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور یہ بجائے خود ایک بہت بڑا اعزاز اور امتیاز ہے۔
جنرل مجید ملک نے دوسری جنگ عظیم کے علاوہ 1965کی جنگ اور 1971کی جنگ میں بھی حصہ لیا اور کچھ فوجی کارنامے سرانجام دیئے۔ علاوہ ازیں ستمبر 1958 میں لگائے جانے والے مارشل لاء کی پلاننگ ان ہی کی ہوئی تھی۔ ’’بریگیڈئر عتیق الرحمن نے ان کو سارا کام سمجھانے کے بعد پوچھا کیا آپ کو سب کچھ سمجھ آگیا ہے؟ آپ نے جواب دیا ’’یس سر! مجھے یہ سمجھ آیا ہے کہ اگر پکڑا جاؤں تو صرف میں پکڑا جاؤں اور باقی سب بچ جائیں‘‘۔ بریگیڈئر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا آپ بالکل ٹھیک سمجھے ہیں‘‘ (صفحہ 72
صدر سکندر مرزا کو قصر صدارت سے رخصت کرنے کے متعلق بہت سے لوگوں نے ٹامک ٹوئیاں ماری ہیں مگر ان کا چشم دید بیان ہے کہ آپ نے صدر کے پیڈ پر سکندر مرزا کا استعفیٰ ٹائپ کیا ’’ایوب خان نے سکندر مرزا کابینہ کے فوجی منسٹروں کو سکندر مرزا کے استعفیٰ والا کاغذ دے کر اس مشن پر صدر ہاؤس روانہ کیا کہ اس سے دستخط کروا لائیں۔ استعفیٰ کی وہ فائل میں نے ا ن کے ساتھ لے کر جانا تھی۔۔۔
ان تین فوجی منسٹروں نے جب ایوب خان سے دریافت کیا کہ استعفیٰ کی فائل کون صدر کے سامنے پیش کرے گا تو ایوب خان نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جنرل اعظم‘‘ ۔ جنرل اعظم چونکہ تھوڑا اونچا سنتے تھے اس لیے ایوب خان نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل اعظم کی خوبی یہ ہے کہ یہ وہی کچھ سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔
سکندر مرزا نیچے آئے ۔ جنرل اعظم ے مجھ سے فائل لے کر ان کے سامنے رکھی۔ مجھے یاد ہے کہ سکندر مرزا اس وقت سگار کے گہرے کش لگا رہے تھے۔ سکندر مرزا اپنے سرکاری پیڈ پر استعفیٰ کا ڈرافٹ دے کر دم بخود رہ گئے۔۔۔ دس بارہ منٹ سکوت رہا۔ ماحول میں سنجیدگی اور کشیدگی غالب تھی ۔ اتنے میں سکندر مرزا کی اہلیہ ناہید سکندر مرزا بھی آگئی۔ اس نے بھی سکندر مرزا کے پاس کھڑے ہوکر استعفیٰ کے پیپر پر نظر دوڑائی ۔ سکندر مرزا نے قدرے توقف کے بعد استعفیٰ پر دستخط کردیئے ۔
اس موقع پر سکندر مرزا کی بیوی ناہید سکندر نے ایک غیر متوقع دلچسپ جملہ کہا’’ ہائے میری بلیوں کا کیا ہو گا؟‘‘۔۔۔ استعفیٰ پر دستخط سے پہلے ہی آرمی نے صدر ہاؤس کا محاصرہ کیا ہوا تھا‘‘۔28 اکتوبر کی صبح پانچ بجے بریگیڈئیر شیر بہادر بمع فوجی گارڈ سکندر مرزا کو لے کر بذریعہ جہاز کوئٹہ روانہ ہوگئے۔۔۔
پاکستان کے صدر سکندر مرزا جس طرح بے بس ہو کر ایوان اقتدار سے نکالے گئے کسی حد تک یہ مصرعہ ان پر صادق آتا ہے کہ سکندر جب گیا دنیا دونوں ہاتھ خالی تھے‘‘ (صفحہ 77-78 چیدہ چیدہ) اس واقعہ کی روداد ہر اس شخص نے بیان کی ہے جسے ایوان صدر سے قریب رہنے کو موقع ملا تھا اور سب نے رجماً بالغیب سے کام لیا ۔ اور تو اور بعض نے جنرل اعظم کے ہاتھ میں پستول تک تھما دیا ہے۔
اس کتاب میں دو تین باتیں نئی ہیں اگر درست ہیں تو یہ ہماری تاریخ میں اضافہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ ’’جب بھٹو نیویارک سے واپس آتے ہوئے روم پہنچے تو جنرل گل حسن اور ائیر مارشل رحیم نے ان کا استقبال کیا‘‘ (صفحہ 125)
اب تک یہ تو کہا جاتا تھا یہ دونوں بھٹو کو اقتدار منتقل کروانے میں پیش پیش تھے مگر ان کا روم تک پہنچ کر بھٹو کو لانا نئی بات ہے۔ دوسری نئی بات نئی تو نہیں غلط ضرور ہے جو جنرل مٹھا کے بارے میں ہے کہ جنرل مٹھا بھی یحییٰ کی انر کیبنٹ میں شامل تھے (صفحہ 111)
اس بات کی تردید میں جنرل مٹھا کی خود نوشت ’’بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘‘ چھپ چکی ہے اس میں بیگم محترم اندو مٹھا نے خاص طور سے اس غلط فہمی کو ردکیا ہے ۔ ’’ایک واحد بات جو انہوں نے میرے ساتھ شئیر کی اس کا بیان کرنے کا رسک میں مول لینے کو تیار ہوں وہ بات یہ تھی کہ جنرل یحییٰ کے مارشل لاء کے زمانے میں جی ایچ کیو میں معمول کی کانفرنسیں ہوا کرتی تھیں جن میں سارے پی ایس اوز شریک ہوا کرتے تھے۔ جب وہ ختم ہو تیں تو بعض پی ایس اوز بشمول جنرل گل حسن یحییٰ کے دفتر میں رک جاتے یا اسی روز شام کو یحییٰ سے جا ملتے لیکن میجر جنرل مٹھا (کیو ایم جی) اور میجر افتخار جنجوعہ(ایج جی او) کبھی اس گروپ میں شامل نہیں رہے‘‘۔ (بمبئی سے جی ایچ کیو تک صفحہ 658)
تیسری بات یہ کہ نوازشریف کے مقرر کردہ جنرل بٹ جی ایچ کیو گئے تو ان کے لیے جی ایچ کیو کے گیٹ نہ کھولے گئے (صفحہ 257) یہ بات بھی ٹھیک نہیں۔ جنرل بٹ اپنے تقرر کے وقت سے معزولی کے وقت تک پرائم منسٹر ہاؤس میں ہی رہے وہاں سے باہر جانے کا انہیں موقع ہی نہیں دیا گیا‘‘ جنرل ضیاء الدین نے وزیر اعظم ہاؤس آنے سے قبل سارا ساز و سامان مہیا کر لیا تھا جنرل ضیاء الدین آرمی چیف کی یونیفارم پہنے وزیر اعظم ہاؤس کے پورچ میں کھڑے تھے ۔۔۔ چار ستاروں والی گاڑی بھی وہیں کھڑی تھی ‘‘ ( ان دی لائن آف فائر صفحہ 129)
جنرل مجید ملک صاحب’’ اپنے آپ کو زیادہ دیانت دار قرار دینا مناسب نہیں سمجھتے ‘‘ (صفحہ215) اور ’’حق بات کی حمایت میں ہمیشہ مستعد رہتے ہیں‘‘ (صفحہ 266)
مگر ان کی خودنوشت میں آنے والی ایک چھوٹی سی بات نے ان کے ان دعووں کو معرض اعتراض میں لاکھڑا کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’ 1947 میں انہیں جماعت احمدیہ کے ہیڈ کوارٹر قادیان سے سامان کی منتقلی کا اہم کام سونپا گیا جسے آپ نے نہایت جانفشانی سے سرانجام دیا ۔ جب آپ یہ اہم کام کر چکے تو دوالمیال کے ایک (ہم وطن) کیپٹن نے انہیں کہا ’’آپ کی کارگردگی سے ہماری جماعت بہت مطمئن ہے آپ اگر قادیانی عقائد اختیار کر لیں تو ہم آپ کو سونے میں تول دیں گے اور آپ کی من مرضی کی شادی بھی کرائیں گے میں نے دو ٹوک الفاظ میں انہیں ٹوک دیا‘‘ (صفحہ 52)
سبحان اللہ جنرل صاحب اس ارزل العمر میں اپنی ریش مبارک والی شبیہہ کے ساتھ یہ فسانہ طرازی فرمانے سے قبل اتنا ہی سوچ لیتے کہ اگر جماعت احمدیہ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے اپنی جماعت کی تعداد بڑھاتی رہتی ہے تو اب تک کہ دنیا بھر کے 140 ممالک میں اس کی مصدقہ تعداد سات کروڑ تک پہنچتی ہے وہ کتنے من سونا محض ’’ فوجیوں‘‘ کو لالچ دینے میں صرف کر چکی ہوگی؟
کیا ’’علماء صوفیا اور مشائخ سے گہری عقیدت رکھنے والے اور ختم نبوت پر پختہ یقین رکھنے والے خاندانوں کے لوگ‘‘ ایس ہی بے پرکیاں اڑایا کرتے ہیں ؟
ان کے کہنے کے مطابق مشہور احمدی جنرل ، جنرل محمود الحسن ان کے دوستوں میں ہیں (صفحہ132)کم ازکم انہی سے پوچھ لیا ہوتا کہ انہیں یا ان کے آباؤ اجداد کو جماعت احمدیہ نے کیا لالچ دے کر احمدی بنایا تھا؟ میں تو ان کیپٹن عطاء اللہ کو بھی جانتا ہوں جو قادیان سے انخلاء کے وقت ڈیوٹی دے رہے تھے۔ اگر جنرل صاحب کی یہ بات ان کی زندگی میں سامنے آئی ہوتی تو میں ان سے تصدیق یا تردید کرواسکتا تھا خدا معلوم جنرل صاحب نے اس اہم بات کے انکشاف میں اتنی تاخیر کیوں کر دی؟ پہلے کہہ دیتے تو ان جیسے کئی نیک لوگ احمدیوں کے اس دام تزویر سے بچ گئے ہوتے۔
صدرفاروق لغاری اور بے نظیر کے اختلافات کا ذکر بڑا برمحل اور درست ہے ان کا خیال ہے کہ ’’بے نظیر چاہتی تھیں کہ صدر لغاری کے اختیارات بالکل محدود کر دیئے جائیں (صفحہ 226) اب نواز شریف نے’’ صدر کے وسیع ترین‘‘ اختیارات والا جو صدر مقرر کر رکھا ہے اس کے بارے میں جنرل صاحب کیا کہتے ہیں ؟ تمھاری زلف میں آئی تو حسن کہلائی۔وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں ہے۔ درحقیقت ہمارا کوئی بھی وزیر اعظم صدر کو ایسے اختیارات دینے کا روادار نہیں جو کسی موقع پر اسے وزارت عظمیٰ سے سبک دوش کرنے کا موجب بن سکیں۔
جنرل عبدالمجید ملک کی یہ خودنوشت ہمارے ملک کے سول اور فوجی کلچر کی عمدگی سے نمائندگی کرتی ہے اور معلوم ہوتا ہے ہمارے موجودہ سول حکمران بھی فوج کی بالا دستی کو دل سے تسلیم کرنے لگے ہیں۔ ورنہ یہ وہی نوازشریف ہیں جو جہانگیر کرامت جیسے شریف جرنیل کو سامنے بٹھا کر استعفیٰ مانگنے سے بھی نہیں چوکتے تھے اب فوجی جرنیل ان کی کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھے اپنے دبدبہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور ہمہ مقتدر نواز شریف ان سے نظریں ملا کر بات نہیں کر سکتے۔ تلک الایام نداولہا بین الناس۔
One Comment