پشتو میں کہا وت ہے کہ’’ ہر بندے کے لئے اپنا وطن کشمیر ہے‘‘۔
کشمیر ہمارے لئے کرہ ارض پر قدرت کا ایک حسیں تحفہ ہے اس کی تعریف میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے اس کے دلکش پہاڑوں اور وادیوں کا ذکر سیاحوں اور فطرت سے محبت کرنے والوں کاہمیشہ من پسند موضوع رہا ہے لیکن پشتو کی یہ کہاوت بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ اپنا وطن ہر شخص کو جنت نظیر کشمیر سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کشمیر کو’’ اٹوٹ انگ‘‘ کہنے والے ہندوستان یا پھر اپنی’’ شاہ رگ‘‘ قرار دینے والے پاکستان سے ہو۔
اپنی قوم اور اپنے وطن کی محبت یا تعریف ہمیں قدیم قبائلی اور جاگیردارانہ نظام سے وراثت میں ملتی ہے یا یہ آدمی کی فطرت میں شامل ہے؟ کیا زمین سے محبت غیر مشروط ہوتی ہے؟ کیا نیو ورلڈ آرڈر کے پس منظر میں کچھ وقت گزرنے پر جب قومی ریاستیں ناگزیر طور پر معدوم ہورہی ہوں گی تو تب بھی وطن سے محبت کا یہی سیاسی مفہوم غالب ہوگا یا انسانی جبلت کے ایک مظہر ناستلجیاکے ہم معنی ہوگا۔
اگر ان سوالات کوخالص علمی انداز میں لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے تمام سوالات کے جوابات ہر دور کی معاشی و سیاسی بنت میں پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ان جوابات کی علمی سطح پر جستجو آپ کے لئے کئی جبینوں کو پرشکن اور کئی ابروں کو کمان کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں تمام فرسودہ معاشرتی قدروں اور رویوں کو حکمران طبقوں کی سیاسی ضرورتوں نے تقدس کی ڈھال فراہم کرکے علم کی دسترس سے باہر کیا ہوا ہے شاید اسی لئے ہمارے ہاں اس قسم کے سوالوں کے جواب کے لئے دانش مند حضرات نے نثر کی بجائے شاعری کووسیلہ بنایا ہوا ہے کیونکہ اس فارم میں محتسب کو جل دینے کی سہولت نثر کی نسبت زیادہ ہے بہرحال، آمد برسر مطلب ،مذکورہ سوال کے حوالے سے کسی شاعر نے کیا خوب پتے کی بات کی ہے کیوں نہ وہیں سے آغاز کیا جائے:۔
امیر شہر غریبوں کو لوٹ کھاتا ہے
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنام وطن
زیر نظر سطور میں ان سوالات کا تاریخی تناظر میں بلا اختصار جواب تلاش کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے
جاگیردارانہ نظام میں ایک جاگیردار کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس بے انتہا پیسہ اور دولت ہو یہ پیسہ اس کے لئے کھیت مزدور زمین پر ہل چلاکر اور فصل اگاکر کے دیتے ہیں چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ اپنے نوکروں کو کچھ بھی نہ دے یا پھر انتہائی کم اجرت دے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کے پاس بچ رہے اسی طرح اس کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ یہی مزدور اس کے کھیت اور کھلیانوں کی حفاطت بھی کریں بوقت ضرورت اس کی خاطر جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہ کریں اور اس کی ملازمت بھی چھوڑ کر کہیں نہ جائیں لہٰذا اس کے لئے اس نے ایک لفظ ’’اپنا‘‘ ایجاد کیا ہوا ہے۔
اس ایک لفظ کا پالن کرتے ہوئے غریب انسان کیا کچھ نہیں کر گزرتا ہے غریب کے پاس ’’ اپنے وطن‘‘ میں سر چھپانے کے لئے چھت تک میسر نہیں ہوتی اس کے پاس بیج بونے کے لئے جریب زمین بھی نہیں ہوتی جبکہ بعض اوقات اس کی حالت آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ طفر کے مافق ہوتی ہے کہ جنہیں دو گز زمین بھی کوئے یار میں میسر نہیں آئی اس کے باوجود یہی غریب ’’اپنا‘‘ کے نام پر جان کی بازی لگادیتا ہے یہ لفظ کئی مواقع پر استعمال ہوتا ہے جیسا کہ:۔
اپنا گھر
اپنا خاندان
اپنا قبیلہ
اپنا بھائی
اپنا گاؤں
اپنا ملک یا وطن
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غریب کی ’’اپنی‘‘ بیوی بھی ایک طرح سے اپنی نہیں ہوتی بلکہ اس ضرب المثل جیسی ہوتی ہے :۔
غریب کی جوروسب کی جورو
اگر ایک غریب کہیں درمیانہ طبقہ کے علاقہ میں رہائش پذیر ہے تو اس کی جورو صبح سے شام تک کسی کے گھر صفائی ، کسی کے برتن مانجھنے، کپڑے دھونے یا ان کے بچوں کو صاف ستھرا رکھنے میں مصروف رہے گی اگر جاگیر دار کے قریب ہے تو پھر دونوں کام لئے جاتے ہیں اس طرح غریب کی جورو اگرچہ قانوناً اس کی ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جاگیردار اور اس کے بیٹوں کی بھی ہوتی ہے۔
لیکن جب کوئی دوسرا جاگیردار یا ملک حملہ کرئے تب یہی غریب سب سے آگے بندوق لے جاتے دیکھے جاتے ہیں کیونکہ ان کی برین واشنگ اس طرح کی گئی ہوتی ہے کہ وہ حاکموں کی جاگیر کو بھی اپنی ہی جانتے ہیں اس طرح ہمیشہ غریبوں نے بالادست طبقات کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھا ہے جاگیردار اور دیگر بالادست طبقات نے غریب کو ہمیشہ الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھاکر دھوکہ دیا ہے اور اپنے مفادات کی جنگ اس کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی ہے۔
روسی لیڈر وی آئی لینن نے پہلی مرتبہ محنت کشوں کو یہ احساس دلایا کہ ’’ ان کو اپنی بندوقوں کا رخ اپنے ہی حکمرانوں اور جاگیرداروں کی جانب کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم جرمنی سے لڑیں گے تو زار شاہی ہی مضبوط ہوگی‘‘۔
یہ لفظ ’اپنا‘ کہاں سے آیا اور غریب نے اپنالیا۔
جاگیردار کے پاس جائیداد اور زمین ہوتی ہے جس پر ہل چلانے ، بیج بونے، پانی دینے، فصل کی نگرانی اور کاٹنے کے لئے کھیت مزدور کا ہونا بھی ضروری ہے جاگیردار کی یہ مجبوری ہے کہ اسے اپنی جائیداد کے پاس رہنا پڑتا ہے یہ اس کی تمام امارت ، جاہ و جلال اور معاش کا ذریعہ ہے اسی کے بل بوتے پر وہ علاقہ اور گاؤں کا بے تاج بادشاہ ہوتاہے اس کے پاس باڈی گارڈ ہوتے ہیں جو اس کی جاگیر میں بسنے والے کھیت مزدوروں کے بیٹے ہی ہوتے ہیں اور جو اس کی، اس کے خاندان اور کھیتوں کی رکھوالی کرتے ہیں۔
کھیت مزدور اس کے لئے اناج، پھل اور سبزیاں اگاتے ہیں ان کے بغیر اس کا کاروبار نہیں چل سکتا ہے کسان بندھا ہوا نہیں ہوتا ہے وہ کہیں بھی جاسکتا ہے جبکہ جاگیردار کی خواہش اور ضرورت ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کہیں نہ جائے لہٰذا اس نے کھیت مزدور کا ذہن ’’اپنی زمین‘‘ ’’اپنا وطن‘‘ ’’اپنی مٹی‘‘اور اس قسم کے دیگر الفاظ سے بھر دیا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف وہ کھیت چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا بلکہ اس کے لئے جان کی بازی بھی لگا دیتا ہے۔
جاگیردار کی یہ بھی تمنا اور سعی ہوتی ہے کہ وہ محنت کش کو کچھ بھی نہ دے اور پھر بھی وہ وفادار رہے اور اس کی زمین سے بندھا رہے اس لئے ’اپنا‘ کے ساتھ ساتھ اس نے غریب کے لئے ایک اور لفظ ’’دھرتی ماتا‘‘ بھی پیدا کیا ہے اگرچہ یہ دھرتی ماتا عملاً جاگیردار کی ہے اس پر وہ مزدور نہ تو مکان بنا سکتا ہے اور نہ ہی جائیداد کا مالک بنتا ہے اس کے باوجود وہ دھرتی ماتا کو نہیں چھوڑتا اور اس کے لئے اس وقت جان دے دیتا ہے جب کوئی دوسرا اس کے اپنے مالک کے گاؤںیا ملک پر حملہ آور ہوتا ہے وہ یہ کہہ کر لڑتا ہے کہ وہ ’’اپنی ‘‘دھرتی کے لئے لڑرہا ہے اپنا وطن اور اپنی دھرتی کے علاوہ خاندان کا تصور بھی یہی کام کرتا ہے غریب اپناگاؤں اس لئے چھوڑ کر نہیں جاتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنی بیوی یا بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر چلا گیا ماضی میں یہی الفاظ اس کی پسماندگی اور غربت کا سبب بنے رہے۔
جاگیرداری نظام کے خاتمہ اور سرمایہ داری کے فروغ نے ان الفاظ کے معنی بدل دئیے ہیں کیونکہ سرمایہ دار کا اپنا ملک، اپنامذہب اور اپنا خاندان نہیں ہوتا ہے وہ زمین کے ساتھ بندھا نہیں ہوتا ہے اسے جہاں اپنے سرمائے کے لئے زرخیز زمین ملتی ہے وہا ں آشیانہ بنالیتا ہے اس کا دیسی اور بدیسی سرمایہ داروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کاروبار ہوتا ہے جن میں نہ صرف ہندو، مسلمان، عیسائی اور یہودی بلکہ گوناگوں مذاہب اور عقائدکے ماننے والے ہوتے ہیں اسی طرح ان میں پٹھان، پنجابی اور امریکی ہوتے ہیں وہ اپنا کاروبار کبھی امریکہ تو کبھی افریقہ اور کبھی عرب ممالک میں کرتا ہے لہٰذا اس کے لئے اپنا وطن کشمیر نہیں ہے بلکہ ہر وہ ملک اس کا وطن اور جنم بھومی ہے جہاں سے اسے زیادہ سے زیادہ آمدن کی توقع ہوتی ہو ۔
متذکرہ صورت شاید ہمیں سمجھاتی ہے کہ وطن پرستی اس وقت تک ایک حقیقت نہیں بن سکتی جب تک اس میں بسنے والے انسانوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ’’ اپنا ملک‘‘’’ اپنی زمین‘‘ حتیٰ کہ ’’ اپنا گھر‘‘ بھی اس وقت ہی اپنا ہوتا ہے جب اس کے معاملات نفع ونقصان اور ملکیت میں ان کا حصہ ہو اگر کسی ملک میں بسنے والے لوگوں کی بڑی اکثریت کے پاس اپنے دو بازوؤں کی محنت کے سوا کچھ بھی نہ ہو حتیٰ کہ ملکی معاملات میں ان کی رائے کی بھی کوئی اہمیت نہ ہو تو اس کے لئے ’’اپنا گھر‘‘ ’اپنی زمین‘‘ اور’’ دھرتی ماتا‘‘ کے وہ معنی نہیں رہ جاتے جو ان سبْ ’’اپنی‘‘ اشیاء کی حفاظت کے لئے درکار ہوتے ہیں یہ بات آج کے پاکستان کے حکمرانوں اور بالادست طبقوں کو سمجھ لینا ضروری ہے۔
♦