بدھ کے روز افغانستان کے سفارتی علاقے میں ہونے والے بم دھماکے کی شدت ایک زلزلے کی طرح محسوس کی گئی۔ انتہائی سکیورٹی والے سفارتی علاقے میں ایسا شدید حملہ سنہ 2001 کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے، جس میں 80 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 350 سے زائد زخمی ہوئے ہیں اور ان میں جرمن سفارت خانے کے لوگ بھی شامل ہیں۔
اس حملے میں پچاس سے زائد گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں اور کھڑکیوں کے شیشوں کے ٹکڑے سینکڑوں میٹر دور جا کر گرے ہیں۔ یہ حملہ ایک ایسے سفارتی علاقے میں ہوا ہے، جہاں غیرملکی ملٹری مشن کے دفاتر بھی موجود ہیں۔
اس علاقے میں پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حملہ آور اس اہم ترین، حساس اور انتہائی الرٹ سکیورٹی والے علاقے تک پہنچ کیسے جاتے ہیں، ایک اتنا بڑا ٹینکر ٹرک کیسے وہاں تک پہنچ گیا؟
اس حملے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ 16 سالہ جنگ، ہزاروں ہلاکتوں اور اربوں ڈالر جھونکنے کے بعد کچھ بھی نہیں بدلا۔ خود سفارت کاروں کو مضبوط اور اونچی اونچی دیواروں کے پیچھے چُھپنا پڑ رہا ہے اور پھر بھی وہ وہاں محفوظ نہیں ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتحال تین سیاسی بحرانوں کا نتیجہ ہے۔ خود حکومت تقسیم ہو چکی ہے اور اس میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ افغانستان کے اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات بگڑتے جا رہے ہیں۔ افغان طالبان (جن کی پشت پناہی پاکستان کررہا ہے) کے ساتھ جاری لڑائی طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔
صدر اشرف غنی کی حکومت کو مغرب کی حمایت تو حاصل ہے لیکن یہ ایک کمزور حکومت ہے۔ اس کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں اور اس کا اثرو رسوخ بھی محدود ہے۔ دوسری جانب طالبان باغی ہیں، انہیں پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ بھی ملتی ہے اور افغانستان کے بڑے حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
افغانستان کے اپنے ہمسائے پاکستان سے تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ پاکستان افغانستان میں اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت چاہتا ہے تاکہ اس خطے میں بھارت کے کردار کو ختم کیا جا سکے۔ اور یہی نقطہ افغانستان میں خانہ جنگی کا باعث بنا ہوا ہے۔افغان قیادت تمام خودکش حملوں کی ذمہ دار پاکستانی ریاست کو ٹھہراتی ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پاکستان نے افغانستان کی خانہ جنگی سے دو طرح کے فوائد حاصل کیے ہیں ۔ ایک تو وہ دہشت گردی کے نام پر امریکی امداد حاصل کرتا رہا ہے اور دوسرے پس پردہ طالبان کی حمایت بھی کرتا رہا ہے تاکہ بھارت کے مقابلے میں افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھ سکے۔
اسی طرح افغانستان کے دو دیگر علاقائی طاقتوں ایران اور روس کے ساتھ تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں اور ان کی مدد کے بغیر بھی افغانستان میں پائیدار امن کا حصول ناممکن ہے۔ دوسری جانب افغانستان روس اور امریکا کے لیے ایک نیا میدان جنگ بنتا جا رہا ہے لیکن اس مرتبہ کردار بدل گئے ہیں۔ اب روس طالبان کی قُربت چاہتا ہے جبکہ امریکا کابل حکومت کی مدد کر رہا ہے۔
مغرب روس کے نئے عزائم کو فکرمندی سے دیکھ رہا ہے اور افغانستان میں امن کے حوالے سے ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کو بھی۔ دوسری جانب ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ ٹرمپ حکومت افغانستان میں دوبارہ نو ہزار کے قریب فوجی تعینات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو افغان فوجیوں کی تربیت کے بجائے طالبان کے خلاف لڑائی میں حصہ لیں گے۔
گزشتہ ہفتے سے امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں داعش اور طالبان کے خلاف سب سے زیادہ ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں۔ اپریل میں ہندوکش میں مارچ کے مقابلے میں دو گنا زیادہ بم پھینکے گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی برسوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان میں سیاسی عمل اپنے ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پایا جس کی بنیادی وجہ طالبان کی مسلسل دہشت گردی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک افغانستان کی جنگ صرف اور صرف سیاسی حل سے ہی جیتی جا سکتی ہے کیوں کہ طاقت اور فوج کے بل بوتے پر یہ گزشتہ سولہ برسوں میں نہیں جیتی جا سکی اور اس جنگ میں نقصان سبھی فریقوں کا ہو رہا ہے۔
DW/News Desk
♦