سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے دانشور سائیں کمال خان شیرانی سے ایک ملاقات کے دوران عبدا لرحیم مندوخیل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا کہ “ عبدالرحیم مندوخیل لر و بر کے افغانوں کا ایک مشترکہ سرمایہ ہے۔ ہمیں اس سرمائے کا خیال رکھنا چاہیے“۔
لر و بر کا یہ قیمتی سرمایہ عبدا لرحیم مندوخیل اب سے چند لمحے پہلے اس دار فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کر گئے ہیں۔ پشتون قوم پرست سیاست کے اس عظیم لیڈر نے اپنی اکیاسی سالہ زندگی میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزارا ھوگا جو اُنھوں نے اپنی قوم اور پاکستان کے دیگر محکوم اقوام کی سیاسی آزادی کیلئے کام کیا ہو۔
آپ نے ہمیشہ اصولی سیاست کی، اپنی ذات اور خاندان سے بڑھ کر اپنی قومی سیاست کو ترجیح دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار سنیٹر اور ایم این اے رہنے کے باوجود اپ کے پاس بینک بیلنس تو دور کی بات، اپنی گاڑی بھی نہیں تھی۔ اور تو اور 2010 تک آپ کے خاندان کے پاس رہائش کیلئے کوئی مکان تک نہیں تھا اور کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔
زوب کی تاریخی سرزمین سے اپنی سیاست کا آغاز کرنے والا رحیم مندوخیل تاحیات اپنی سیاسی سوچ اور اپنی قوم کیلئے قومی جدوجہد کیلئے کمربستہ رہے۔ پاکستان میں پشتون کاز کیلئے جہاں دیگر قوم پرست رہنماؤں نے اپنی جان و مال سے اپنے قوم کا دفاع کیا ہے وہیں رحیم صاحب نے بھی پارلیمنٹ ہو یا پارلیمنٹ سے باہر جلوس و جلسہ ہو، ہر فورم پر اپنی قوم کی بہترین نمائندگی کی ہے۔
ملک میں پشتونوں کا چار حصوں میں تقسیم ہو، ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ہو یا پھر بلوچستان کے اندر پشتون بلوچ برابری جیسے ملکی و بین القوامی قومی مسائل پر ایک بہترین وکیل کا کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنوبی افریقہ کے عظیم قومی رہنما نیلسن منڈیلا سے ایک ملاقات میں پاکستان کے اندر پشتونوں کے مسائل کا ذکر کیا گیا تو منڈیلا نے عبدالرحیم صاحب سے کہا تھا کہ ہاں مجھے پاکستان کے پشتونوں کی قومی جدوجہد کے بارے میں نا صرف علم ہے بلکہ میں ان کی جدوجہد کی حمایت بھی کرتا ہوں۔
پاکستان میں محترم سیاسی استاد رحیم صاحب کا شمار چوٹی کے اُن قوم پرست رہنماوں میں شمار ہوتا ہے جو اپنی قوم اور دیگر مظلوم اقوام کے آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے تمام زندگی تکالیف و مصائب سے بھری سیاست کرتے رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی کوئی طاقت، عہدہ اُسے پیچھے جانے پر مجبور نہ کرسکیں۔ آپ ہمت اور حوصلے کے پیکر تھے اور سخت سے سخت سیاسی حالات میں بھی ہمیشہ مثبت اور پرامید رہتے تھے۔ طالبان اور بعد میں نائن الیون کے بعد پشتون علاقوں پر جو شب خون ہوا تھا ایسے نازک اور افراتفری کے حالات میں بھی استاد محترم نا صرف یہ کہ لوگوں کو سیاسی طور پر حوصلہ دیتے رہے بلکہ سیاسی اور قومی میدان بھی اُن کی رہنمائی کرتے رہے۔
آپ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل تھے لیکن آپ نے روز اول سے ہی اپنی قوم کا مقدمہ لڑنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا تھا۔ تاریخ و علم کی روشنی میں یہ مقدمہ بہترین انداز میں لڑا۔ آج اگر پشتونوں کو اپنی تاریخ کے بارے میں اپنی قوم کے حقوق کے بارے میں علم و ادراک ہے تو یہ انہی کی مرہون منت ہیں۔ آج اگر پاکستان کے پشتونوں کو اپنی جغرافیہ، چار حصوں میں منقسم وطن ، تاریخی افغانستان سے ربط ہو یا پھر پشتونوں کے آئینی حقوق کا ادراک ہو تو یہ آپ ہی کی سیاست کا نتیجہ ہے۔
استاد رحیم صاحب نا صرف یہ کہ ایک اچھے سیاسی رہنما تھے بلکہ ایک اچھے مورخ بھی تھے۔ پشتونوں کی تاریخ، جغرافیہ انگریز دور اور مختلف ادوار میں انگریزوں کیساتھ لڑی گئی آزادی کی جنگوں، اور انگریزوں کیساتھ کی گئی استعماری معاہدات کے حوالے سے اپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں، اور مختلف مقامی اور بین القوامی فورمز پر اس خطے کے حوالے سے بہترین مقالے پیش کئے ہیں۔
نوجوان نسل پر لازم ہے کہ اگر وہ فاٹا، پشتونخوا، بلوچستان کے پشتون اور اٹک میاںوالی و تاریخ افغانستان کے حوالے سے استاد محترم کی لکھی گئی یہ کتابیں اور مقالے ضرور پڑھیں اور ان سے استفادہ حاصل کریں۔ انگریزی استعمار او افغانستان، اٍفغان او افغانستان، خان شہید سمینار کابل اور بحر عرب، احمر اور ہندو چین کے حوالے سے لکھی گئی کتابیں اور تحقیقی مقالے آپ کی اُن تصانیف میں سے ہیں جن کو اس خطے کے ہر طالبعلم اور ہر قوم سے تعلق رکھنے والے قوم دوست افراد کو اپنی لائبریری کا حصہ بنانا چاہے۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی، جس نے اپنی ٦٣ سالہ زندگی کے ٣٣ سال انگریز اور بعد میں پاکستان کے مختلف جیلوں میں گزارے تھے تاکہ اپنی قوم کو اس مظلومیت سے نکالا جاسکے۔ اُنھیں ایک حقیقی پہچان دی جاسکے، اُس کی زندگی میں اور بعد میں اُس کی شہادت کے بعد استاد رحیم صاحب نے خان شہید کے اس قومی کاز کو نا صرف کندھا دیا بلکہ اپنے عمل اور جدوجہد سے اس سوچ کو ایک قومی تحریک میں تبدیل کردیا ہے۔
یہ ہماری تاریخ کا ایک بہت ہی نمایاں باب ہے ۔ ہماری مٹی نے ایسے بیٹوں کو بھی جنم دیا ہے جو اپنے وطن قوم اور انکے دفاع و استقلال کیلئے اپنے سر کو ہتھیلی پر رکھ کرکشور مادر کا دفاع کرتے رہے جن میں روشنانی تحریک کے بانی بایزید روشان اور اس طرح ایمل خان ،دریا خان ،خوشحال خان خٹک ، میروس نیکہ ، احمد شاہ بابا، ایوب خان ،عبداللہ خان، بابائے استقلال غازی امان اللہ خان، باچا خان ، استاد نور محمد ترکئی ، ڈاکٹر نجیب اللہ، عبدالصمد خان اچکزئی ، اور دیگر سرباز پشتونوں نے اپنے وطن کی دفاع کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر اپنے زیرک سیاست، بزم اور تلوار کے زور سے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملادیااور اپنی تمام قوم و مٹی کو خودمختاری کا مالک بنانے کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ استاد رحیم صاحب نے بھی اپنی سیاسی تدابیر کے ذریعے اپنی قوم کی رہنمائی کی اور مورخ جب بھی پشتون قوم اور پاکستان میں دیگر مظلوم اقوام کی تاریخ لکھے گا تو اس میں استاد عبدالرحیم مندوخیل کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔
استاد محترم رحیم صاحب تو قومی سیاست کیساتھ ساتھ اپنی قوم کا علمی و سائینسی بنیادوں پر بھی تربیت کرتا رہا اورآج انھوں نے سینکڑوں ایسے سیاسی شاگرد پیدا کئے ہیں جو آزادی کے اس جھنڈے کو پکڑ کر عملی طور پر قوم کی رہنمائی کریں گے جن میں بہترین مثال بے باک اور بااصول قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی جیسے رہنما کی شکل میں موجود ہے۔
♠