ارشد بٹ ایڈووکیٹ
نوازشریف اورآصف زرداری کو ڈاکو اورچور جیسے القابات سے مخاطب کرنا عمران خان کے سیاسی کھیل کا اٹیک باونسر رھا ہے۔ مگرعوام عمران خان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ڈاکووں اور چوروں کے جمگھٹے میں چہچہانے والا، انکی کرپشن کو ڈرائی کلین کرکے لوٹ مار کی دولت سے سیاست چمکانے والا کس لقب سے نوازا جانا چاہئے۔ یہاں تو صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی سیاسی حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ سب نے ایک دوسرے کو بے لباس کیا اور اب ستر پوشی کے لئے کسی کے پاس کچھ نہیں بچا۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ، صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہیں جبکہ وفاق میں مسلم لیگ کی حکومت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی اداروں، سیاستدانوں اورعمومی مالی کرپشن کا خاتمہ کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ کیا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت نے اب تک کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
بقول عمران خان پنجاب، سندھ اور وفاقی حکمرانوں کے ہاتھ کرپشن میں رنگے ہوئے ہیں اور حکمران جماعتوں کے راہنما ماضی میں بھی لوٹ مار کی دولت سے جھولیاں بھرتے رہے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا کافی ہو گا کہ صوبہ پختونخواہ کی حکومت کے وزیراعلی پرویز خٹک اور اکثر وزرا سیاست یا حکومت میں پہلی بار وارد نہیں ہوئے ۔ وزیراعلی خٹک اور انکی صوبائی کابینہ میں شامل کئی وزرا سابقہ کرپٹ حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ جب وزیراعلی اورکئی وزرا نے ایک دوسرے پر کرپشن کا کیچڑ اچھالنا شروع کیا تو صوبائی احتساب کمشنر نے کرپشن کے مجوزہ الزامات کی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ مگر صوبائی حکومت اورعمران خان کے دباو کی وجہ سے صوبائی احتساب کمشنر کو اپنے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا۔
پانچ سالہ حکومت کا دورانیہ ختم ہونے کو ہے اور نئے عام الیکشن کی آمد آمد ہے مگر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ایک آزاد اور خود مختار احتساب کمشنر مقرر کرنے سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ وفاق، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا ذکراس لئے اھم نہیں کہ انکے ایجنڈے پر کرپشن کا خاتمہ اولین ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ زوراس بات پر ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتوں کی لوٹ مار اورکرپشن کے خلاف نعرہ بلند کرنے والے عمران خان کی صوبائی حکومت نے کرپشن کے خاتمہ کے لئے کوئی عملی اور موثر قدم اٹھائے۔ اسکا جواب تو منفی کے علاوہ کیاہوو سکتا ہے۔
وفاقی اورصوبائی حکومتیں چارسال مکمل کر کے حکمرانی کے پانچویں سال میں داخل ہو چکی ہیں۔ پوراعرصہ کرپشن کے خلاف کھوکھلی نعرہ بازی سے گونجتا رہا۔ مگر حکمران جماعتیں یعنی مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف میں سے کوئی ایک جماعت بھی ریاستی اداروں، سیاستدانوں اورعمومی مالیاتی کرپشن کے خاتمے کے لئے قانون سازی کرنے یا احتساب کا آزاد اور خودمختار نظام وضع کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔ عوام کی آنکھوں کے سامنے یہ پتلی تماشہ سترسالوں سے بار بار رچایا جا رہا ہے۔
سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف اور فوجی ڈکٹیٹر سویلین حکمرانوں کے خلاف لوٹ مار کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ فوجی ڈکٹیٹر بعد ازاں انہی سویلین کرپٹ سیاستدانوں کو شریک اقتدار کرتے رہے اور اس گٹھ جوڑ سے کرپشن کا بازار گرم رکھا۔ فوجی ڈکٹیٹروں کے ادوار میں کرپشن کی داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ کرپشن پتلی تماشا لگا کرعوام کو سال ہا سال سے بہلایا جا رہا ہے۔ اوراب کرپشن پہاڑ کی کھدائی تفتیشی کدال سے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ نواز لیگ تفتیشی ٹیم اورعدلیہ کو متنازعہ بنانے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے۔ جبکہ عمران خان امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ کا نتیجہ انکی توقعات کے عین مطابق نکلے گا۔ جس پرانہوں نے تفتیشی ٹیم کی مدافعت میں میدان سجا رکھا ہے۔ تفتیشی رپورٹ سے جو برآمد ہو گا سو ہو گا۔ مگر اس کے نتیجہ میں عدالتی کاروائی کا ایک نیا اور طویل سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے۔
تفتیشی رپورٹ کے بعد اگرعدالت عظمٰی اس نتیجے تک پہنچتی ہے کہ میسرمواد کی روشنی میں قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لئے باقاعدہ مقدمہ کی کاروائی شروع کرنا ہو گی۔ ملک کی اعلی ترین عدالت ہونے کی حیثیت سے عدالت عظمیٰ ٹرائل کورٹ نہیں بن سکتی۔ اس لئے مقدمہ کی کاروائی لا محالہ کسی نچلی عدالت میں منتقل ہو سکتی ہے۔ سزا یا بریت کی صورت میں سزایافتہ یا مدعی کو اپیل کا حق ملنا ایک قانونی تقاضا ہے جس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ جب ٹرائل شروع ہو گیا تو پھر “ستے ای خیراں“۔ کون خوشی سے بھنگڑے ڈالے گا اور کون سودے بازی کا ڈھول پیٹے گا۔ وضاحت کی ضرورت نہیں۔
سادہ لوح عوام کو قانونی موشگافیوں، میڈیا تبصروں اورسیاسی بیان بازیوں کےگھنجل میں الجھا دیا گیا ہے۔ اور عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ہنگامہ آرائی میں حیران و پریشان عوام ایک بار پھر کسی معجزہ کے منتظرہیں۔
پہاڑ کی کھدائی کے بعد کیا نکلنے والا ہے یہ تو کھدائی کرنے والے بھی شاید نہیں جانتے ہوں گے۔ مگرحساس نظر رکھنے والوں کو پہاڑ کی طے میں مرے ہوئے چوہے کےعلاوہ ابھی تک کچھ نظر نہیں آرہا۔ مگر یہ بڑا واضح نظرآرہا ہے کہ نئے یا پرانے، فوجی یا سویلین سب حکمرانوں کے ہاتھ کرپشن، لوٹ ماراورمعاشی استحصال کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
♦