علی وارثی
کبھی سوچا ہے کہ افغانستان میں ہونے والے دھماکوں پر ہمیں دکھ یا تکلیف کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟
میں بتاتا ہوں۔ جب میں نے نیا نیا کالم پڑھنا شروع کیا، کوئی 2004 یا 5 کی بات ہوگی، تو میرے پسندیدہ ترین لکھاری ہارون الرشید اور عرفان صدیقی ہوا کرتے تھے۔ یہ دونوں حضرات مشرف کے کٹر دشمن تھے اور نثرنگاری میں دونوں ہی کو کمال حاصل ہے۔ ان سے آپ لاکھ اختلاف رکھیں مگر یہ دونوں اپنے پڑھنے والوں کو کئی سال سحر زدہ رکھ چکے ہیں اور میں اس وجہ سے ان کی آج بھی عزت کرتا ہوں، کرتوت کچھ بھی رہے ہوں۔
صدیقی صاحب نواز شریف کے عاشق اور ہارون صاحب عمران خان کے شیدائی ہیں مگر یہ دونوں ہی افغان جہاد کے بہت بڑے داعی رہے ہیں۔ان دونوں کی تحاریر میں آپ کو پشتونوں کی بہادری کے قصے ملیں گے۔
عرفان صاحب کے کالم میں ایک بار پڑھا کہ کیسے دو افغان مجاہدین کے درمیان ایک مرتبہ کون زیادہ بہادر ہے کی بحث ایسی ٹھنی کہ ایک نے دہکتی آگ میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس وقت تک رکھے رکھا جب تک کہ اس کے ہاتھ کا گوشت اور چربی پگھل نہیں گئے۔ ہارون صاحب کے کالم میں ایک بار پڑھا کہ ملا عمر نے قسم کھائی تھی کہ بھارت سے جنگ کی صورت میں جہاں پاکستانیوں کا پسینہ گرے گا وہاں افغانوں کا خون بہے گا۔
مشرف سے دشمنی بھی تھی۔ اس کی نفرت میں ان دونوں حضرات کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرتے گئے۔ آہستہ آہستہ افغان میرے نزدیک کوئی انسان نہیں رہے۔ وہ اپنی بہادری کے زعم میں پاگل ایک ایسی جنگلی قوم بنتے چلے گئے جو پاکستان کی خاطر جانیں قربان کرتے ہیں، اور اگر وہ یہ جان پاکستان کے لیے قربان نہ بھی کر رہے ہوں تو ویسے ہی اپنے ہاتھ صرف خود کو بہادر ثابت کرنے کے شوق میں جلاتے رہتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ افغان ہمارے لیے کوئی انسان رہے ہی نہیں۔ ان کا مرنا جینا برابر ہو گیا۔ اب اگر کابل سے دھماکے کی خبر آتی ہے تو ہمارے نزدیک یہ چند ایسے افراد کی موت ہوتی ہے جو نہ بھی مرتے تو کسی دن ویسے ہی اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے چکر میں جسم کو آگ لگا لیتے۔
افغانوں کو جنگلی ثابت کرنے میں وہ سب لکھاری بھی برابر کے شریک رہے ہیں جنہوں نے انہیں سخت جان ثابت کرنے کے لیے ان کی شان میں یہ قصیدے گھڑے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ پنجابیوں کا نوائے وقت ان پنجاب کے رہنے والے اردو لکھاریوں کی افغانوں کے لیے لکھی رباعیاں کیوں چھاپتا رہا؟ کبھی سوچا ہے کہ آخر افغانوں کے دل میں گلبدین حکمت یار اور ملا عمر وہ عزت کیوں نہیں رکھتے جو ان پنجابیوں کے دلوں میں رکھتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ افغانستان میں جو کچھ کرتے رہے وہ پنجابی اذہان کی پیداوار تھا۔ اور پنجاب ہی کی ضرورت تھا۔ یہ بےوقوف پختون صرف ان منافق پنجابی شاونسٹوں کے ہیرو ہو سکتے ہیں جو خود کو پاکستان کے ٹھیکیدار سمجھتے، کسی قوم پرست پختون کے نہیں۔
خود کو سب سے پہلے مسلمان، سب سے پہلے پاکستان، کی بجائے سب سے پہلے انسان سمجھیں تو آپ کو کابل کا درد بھی ویسے ہی محسوس ہوگا جیسے لاہور اور پیرس کا ہوتا ہے۔
Fasaadi.comبشکریہ