بیرسٹر حمید باشانی
پاکستانی میڈیا کے لیے یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہیں تھی۔یہاں کے بیشتر ایڈیٹرز ماحولیاتی تبدیلی کی سائنس کو ہی نہیں مانتے۔ان کے خیال میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں فکر مند ہونا خداکے کاموں میں بے جا مداخلت ہے۔ان میں سے بعض کا یہ بھی ماننا ہے کہ فضائی آلودگی محض ایک سوشلسٹ اور لبرل پروپیگنڈا ہے جس پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں۔چنانچہ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس ایکارڈ سے نکلنے کا اعلان کیا تو پاکستان کے کسی اخبار یا ٹی۔وی نے اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔حالانکہ یہ ایک دھماکہ خیز اعلان تھا۔
امریکہ کا پیرس ایکارڈ سے نکلنا صدر ٹرمپ کے اب تک کے اقدامات میں سب سے خطرناک اور تباہ کن قدم ہے۔ماحولیات کے بارے میں یہ معاہدہ2015 میں پیرس میں ہوا تھا۔اس معاہدے پر دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک نے دستخط کیے تھے۔اس معاہدے کا بنیادی مقصد فضائی آلودگی کی روک تھام کے لیے مشترکہ کوشش اور باہمی تعاون تھا۔یہ ایک رضا کارانہ معاہدہ تھا۔دنیا کے دو ملکوں یعنی شام اور نکاراگوا نے اس پر دستخط نہیں کیے۔شام کی وجہ خانہ جنگی تھی۔نکاراگوا کی وجہ بہت ہی معقول اور وزن دار تھی۔ اس ملک کے نمائندے نے اس معاہدے پر ستخط نہ کرنے کی کئی وجوہات بیان کیں۔
پہلی وجہ یہ بتائی کہ یہ معاہدہ غیر سنجیدہ ہے۔ دوسری جہ یہ ہے کہ یہ رضا کارانہ ہے اور اس کی خلاف ورزی کی کوئی سزا نہیں اور نہ ہی خلاف ورزی روکنے کے کیے کوئی نظام وضع کیا گیا ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ اس کے مقرر کردہ اہداف نا کافی ہیں۔اس سے گلوبل ورامنگ نہیں رکے گی۔اور اس کی ناکامی سے دنیا میں جو تباہی اور بربادی آئے گی ہم اس میں حصہ دار نہیں بن سکتے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ پاکستان بھارت جیسے ملکوں میں اور ان کے اردگردجس تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں ان سے بہت بڑی تباہی کے امکانات ہیں اور اس کو روکنے کے لیے سنجیدہ اور ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ معاہدہ ناکافی ہے۔
اس نے اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ نکاراگوا اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کر رہا ہے اور نکاراگوانے والے دس سالوں میں اپنے حصے کے ماحولیاتی آلودگی کے مسائل پر مکمل قابو پا لے گا۔اور اگر دنیا اس مسئلے پر سنجیدہ ہے تو اسے ایسے ہی تیز رفتار اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ معاہدہ ناکافی ہے اس لیے یہ معاہدہ بلآخر ناکامی سے دوچار ہو گا۔یعنی سادہ الفاظ میں نکاراگوا کا استدلال یہ تھا کہ گلوبل ورامنگ اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کا خطرہ حقیقی اور فوری ہے۔
صدر ٹرمپ بھی اس معاہدے سے نا خوش تھے مگر ان کی وجوہات نکاراگوا کے بالکل الٹ تھیں۔وہ ماحولیات سے جڑی سائنس اور اس کے اعداد شمار اور ان سے اخذ کردہ نتائج پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ ہماری اس دنیا کو فضائی آلودگی کی وجہ سے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے۔ اور کچھ ممالک فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبا ہی کا شور ڈال کر امریکہ کو سزا دینے اور اسے لوٹنے کے درپے ہیں۔۔ان کے خیال میں دنیا میں موسموں کا بدلنا، درجہ حرارت کا اوپر نیچے ہونا، گلیشیرز کا جمنا پگھلنا یا دریا ؤں اور سمندروں کے پانیوں کا اوپر نیچے ہونے کا کام خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے اور اس میں انسان یا سائنس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس طرح وہ اس سارے کام کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں جو سائنس نے اس سلسلے میں گزشتہ تین سو سالوں میں کیا ہے۔
ظاہر ہے فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی پر دو مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ مگر اس حقیقت سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا کہ صنعتی دور کے آغاز یعنی تقر یباً 1750 سے لیکر اج تک انسانی سرگرمی کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی اکسائڈ کی مقدار میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔انسان نے ترقی کے نام پر انتہائی بے دردی سے بڑے پیمانے پر تیل، کوئلے، اور گیس کے ذخائر کو نکالا اور استعمال کیا ہے۔ یہ سلسلہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ اور اس کے اثرات بڑھتے ہوئے اثرات ماحول اور موسم پر واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔
دنیا میں درجہ حرارت جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے کئی معتبر سانئس دانوں کا خیال ہے کہ آئندہ بیس سالوں میں دنیا کے کئی حصوں میں انسانی بستیوں کا وجود خطرے میں پڑھ جائے گا۔کئی ممالک سمندروں کے نیچے آ جائیں گے یا طوفانوں اور سیلابوں کی نظر ہو جائیں گے۔گلوبل وارمنگ جیسے حساس عالمی مسئلے پر امریکہ جیسی واحد سپر پاور کی طرف سے اس طرح کی رجعتی پالیسی اختیار کرنا حیران کن نہیں ہے۔اس سے پہلے کیوٹو پروٹول کے باب میں ایسا ہو چکا ہے۔
یہاں کی ایک مضبوط لابی کے معاشی مفادات ایسی معاشی اور تجارتی سر گرمیوں سے جڑے ہیں جو فضائی آلودگی کا باعث ہیں۔ان کی کانگرس میں ایک طاقت ور لابی ہے جس کی موجودگی میں ماحولیات کے حوالے سے کسی عالمی معاہدے یا پروٹوکول کی تو ثیق کرانا نا ممکن ہے۔ اسی مشکل کے پیش نظر صدر کلنٹن ، نائب صدر ایل گور اور پھر صدر اوبامہ نے کیوٹو اور پیرس ایکارڈ کی ضرورت محسوس کی تھی ۔مگر اب بدقسمتی سے ماحولیاتی تباہی سے فائدے اٹھانے والوں کو صدر ٹرمپ کی شکل میں ایک ایسا ہم خیال مل گیا ہے جو دنیا کے مستقبل یا آنے والی نسلوں کے لیے کوئی زیادہ فکر مند نہیں ۔
♦
One Comment