ایمل خٹک
مذہب اور علماء کا قول و فعل دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ویسٹڈ انٹرسٹ یا مفادی حلقے دونوں کو خلط ملط کرتے ہیں ۔ کسی بھی معاشرے میں چاہے مذہبی ہو یا غیر مذہبی کوئی بھی طبقہ بشمول علماء کرام مادر پدر آزاد نہیں ہوتے ۔ وہ مروجہ قوانین ، اخلاقی اقدار اور ضابطوں کے پابند ہوتے ہیں۔ قوم غلط طرزعمل پر ان سے سوال کرنے کا حق رکھتی ہے۔ ان کے محاسبے کا حق رکھتی ہے۔ ملک میں مذہبی انتشار اور منافرت کی موجودہ خطرناک صورتحال کے پیش نظر مذہبی طبقے میں موجود بعض منفی رحجانات پر بات کرنے اور بحث کرنے کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے ۔
اصلاح احوال کیلئے ان منفی مذہبی رحجانات کی نشاندہی کرنا اور اس کو سامنے لانا اب ضروری ہوگیا ہے ۔ اس میں مزید تاخیر یا مصلحتوں کے تحت خاموش رہنا مزید تباہی اور بربادی کا باعث بنے گا ۔ اب قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ تباہی اور بربادی کے سلسلے کو جاری رکھنا ہے یا روکنا ہے۔ مذہب کا سیاسی یا ذاتی مفاد کیلئے غلط استعمال کو روکنا ہوگا ۔ مذہبی منافرت ، فرقہ واریت اور تشدد کے رحجانات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔ علماء کی عزت نفس کا بھی یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے منصب کے شایان شان طرزعمل اختیار کرے کہ وہ عوام کو اپنے کردار پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ دیں۔
علماء پر تنقید مذہب پر تنقید نہیں ہوتی البتہ یہ اور بات ہے کہ بعض مفادی حلقے جو عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں اور جوابدہی اور احتساب کے عمل سے ڈرتے ہیں تو اس کو اس طرح پیش کرتے ہیں ۔ اور عوامی تنقید سے بچنے کیلئے علماء پر تنقید کو مذہب پر تنقید کے مترادف ٹھہراتے ہیں۔ چاہے مذہب ہو یا سوشل سسٹم معاشرے میں قانونی اور اخلاقی ضابطوں اور اقدار کی پاسداری کا درس دیتے ہیں۔ ذمہ دارانہ رویئے اور دوسروں کی جان و مال کے تحفظ کا درس دیتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے سیاسی اور سماجی طاقت کے حصول کے بعد کچھ سماجی گروہ من مانی پر اتر آتے ہیں اور ذاتی یا گروہی مفاد کے زیر اثر قانون یا اخلاقی ضابطوں کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں ۔ اپنے آپ کو ہر قسم کے قوانین اور ضابطوں سے مبرا سمجھتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اپنی سیاسی اور سماجی قوت کی بنیاد پر بلیک میلنگ ، دہونس دباؤ اور من مانی کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔
مشال خان کے کیس میں مردان کے کچھ علماء کی جانب سے ایک نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی کا قیام دراصل بلیک میلنگ کی ایک انتہائی کوشش تھی ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سو موٹو ایکشن کے بعد اور ایک جوائینٹ تحقیقاتی ٹیم کے قیام کے بعد جبکہ اس کی تحقیقاتی رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی تھی کہ ایک متنازعہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جو مشال خان کیس کی تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی ناکام کوشش تھی ۔
اگر ان علماء کرام کو اپنے الزامات کی صداقت اور سچائی پر یقین ہوتا تو شاید وہ رپورٹ آنے کا انتظار کرتے مگر کمیٹی نے ابھی کام بھی شروع نہیں کیا تھا کہ ایک نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ۔ پاکستان جیسے ایک کٹر اسلامی معاشرے میں تیرہ رکنی جی ٹی آئی سے جس کے تمام تر اراکین مسلمان ہو یہ توقع رکھنا کہ وہ میرٹ سےہٹ کر توہین رسالت کے مرتکب فرد کے حق میں فیصلہ دینگے ناممکنات میں سے ہے ۔ یہاں تو الٹا بعض ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیمیں یہ تنقید کرتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے کیسوں میں میرٹ پر نہیں بلکہ جذبات کے رو میں اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں ۔
مشال خان کیس میں بعض علماء کرام کا یہ طرزعمل انتہائی غیر ضروری اور بیجا تھا ۔ پتہ نہیں مذہب کے ان شیدائیوں نے ایک بے قصور فرد کو قصوروار ٹھہرانے کی کوشش کرکے مذہب کی کیا خدمت کی ہوگی البتہ اس عمل سے انہوں نے ملک بھر میں عوامی غم وغصے کو دعوت دی اور اسے ابھارا ۔ ہر طرف سے ان کی لعنت وملامت ہوئی۔ اس کیس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش سے اندرون ملک اور بیرون ملک جگ ہنسائی اور بدنامی ہوئی۔ بدقسمتی سے ان کا یہ غلط طرزعمل اب زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا ۔ اور زندگی بھر ان کو اس ناپسندیدہ عمل کی وجہ سے طعنے ملیں گے۔
علماء کرام کے اس طرزعمل اور خاص کر جی ٹی آئی کا فیصلہ آنے کے بعد عوام بہت سے سوالات اٹھا رہے ہیں ۔ بعض سوالات قارئین کی دلچسپی کے لیے نیچے دیے جا رہے ہیں ۔ ہمارے مقدس مذہب کے مطابق ایک بیگناہ انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے تو کیا مردان کے علماء قوم کی راہنمائی فرمائینگے کہ پاکستان کے سب سے اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے زیر ہدایت قائم جی ٹی آئی کا فیصلہ آنے اور مشال خان شہید کی توھین رسالت کے الزام سے بریت کے بعد وہ قوم سے اپنے کئے کی معافی مانگیں گے یا انسانیت کے قاتلوں کے حامیوں کے صف میں کھڑا ہونا پسند کر یں گے؟
کیا ہمارے مذہب میں ایک بیگناہ مسلمان پر توھین رسالت کا الزام لگانا اور پھر اس بے بنیاد الزام کے تحت اس کو غیر انسانی طریقے سے قتل کرنا جا ئز ہے اگر نہیں تو جن افراد نے یہ مکروہ جرم کیا ہے ان کیلئے سزا کیا ہے؟ مشال خان پر لگایا گیا الزام غلط ثابت کرنے والے ناقابل تردید شواہد کے باوجود ایسی درندگی کرنے والوں کی حمایت کرنے والوں کیلئے کیا حکم ہے ؟
کیا پیغمبر اسلام سے محبت کا اظہار افواہوں پر سُنی سُنائی باتوں پر قتل و غارت ہے یا اسلام کا شیدائی ہونے کا مطلب صرف نفرت اور تشدد کو ابھارنا ہے یا مذہبی رواداری ، میانہ روی ، صبر اور برداشت کی تلقین اور مظاہرہ بھی ہے۔ شیطانی وسوسوں سے بچنا اور افواہوں پر کان نہ دھرنا بھی ہے ؟
کیا مذہب میں بغیر تصدیق کے افواہوں اور سنی سنائی باتوں پر قتل جیسا سنگین عمل کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں تو اس سلسلے میں تعلیمات کیا ہیں ؟ سیرت پیغمبر اسلام کی روشنی میں یہ علماء کرام یہ بیان پسند کر یں گے کہ انہوں نے مشال خان کے کیس میں جو طرزعمل اختیار کیا وہ کیا رسول اکرم کے قول و فعل کےمطابق تھا یا منافی ؟ ذاتی یا گروہی مفادات کیلئے کی گئی قتل کی سازش کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش سے مذہب کے بارے میں پیداشدہ غلط تاثر اور غلط فہمیوں کی صفائی کیسے ہوگی ؟
پھر مشال خان کی شہادت اور اس کے بیگناہی کے ٹھوس شواہد کے باوجود بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے جس طریقے سے اس کیس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش سے اندرون ملک اور بیرون ملک جو جگ ہنسائی اور بدنامی ہوئی اس کا ازالہ کیسے ہوگا ؟ اعلی ترین ملکی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اب مندرجہ ذیل تعلیمات کی روشنی میں آپ لوگ اپنے طرزعمل کی کیا وضاحت کرنا پسند کرئینگے ؟
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے “۔ ( صحیح مسلم )۔ ایک اور روایت میں ہے: ’’ انسان کے گناہگار ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے‘‘۔ جبکہ ایک اور حدیث ہے کہ ’’ جو شخص جان بوجھ کر کوئی مشکوک خبر بیان کرے، تو وہ بھی جھوٹے لوگوں میں شامل ہے‘‘( صحیح مسلم )۔
اس طرح ایک اور جگہ آپ نے فرمایا کہ : ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘ ۔ (متفق علیہ)۔
آخر میں کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ یہ تعلیمات صرف بیان کرنے کیلئے یا اس پر عمل کی بھی ضرورت ہے ؟
♣
One Comment