ڈی اصغر
قبل اِس کے ، کہ یہ بندہ اِس موضوع پر کچھ عرض کرے، یہاں کچھ ضروری وضاحت کرنا اپنی سماجی اور اخلاقی ذمے دری سمجھتا ہے ۔ اِس کج فہم لکھاری کا نہ ہی پاکستان میں اور نہ پاکستان سے باہر کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق ، رشتہ ، واسطہ یا وابستگی، براہ راست ماضی میں رہی ہے اور نا ہی مستقبل قریب میں کوئی امکانات ہیں ۔ بندہ وطن عزیز کی سیاست میں غیر معمولی دلچسپی رکھتا ہے ، اور جو بھی کہتا اور لکھتا ہے ، وہ اس ناچیز کے مشاہدے اور فطری و فکری شعور کی روشنی میں ہوتا ہے ۔
گذشتہ برس، اگست کی ٢٢ تاریخ کو، کراچی کی مقبول ترین سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے قائد ، جناب الطاف حسین نے فرط جذبات میں آ کر ایک پاکستان مخالف نعرہ لگایا ۔ یوں سمجھیے ایک بھونچال آ گیا ۔ تمام ٹی وی کے چینل ، اخبار، رسائل ، جرائد ، انٹرنیٹ کی ویب سائٹس ان کے خلاف اپنے شدید غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے ان پر پل پڑے ۔ ان پر کمال سرعت سے “غدّار ” کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔ جناب الطاف حسین نے متعدد بار اس نعرے کی وجوہات بیان کیں اور اپنے تمام چاہنے والوں سے بالخصوص اورتمام پاکستانیوں سے بالعموم معذرت کی درخواست کی۔
حتئ کہ کئی بار ملک کی سیاسی اورعسکری قیادت کے آگے بھی اِس معافی کو زبانی اور تحریری طور پر کئی بار دہرایا۔ مگر ان کا یہ جرم اِس قدر سنگین نوعیت کا تھا کہ ، وہ تمام تر وضاحتیں اور معذرتیں دھری کی دھری رہ گئیں ۔راقم یہاں ایک اور بات یہ واضح کرنا چاہتا ہے ، جو قارئین اِس مصنف کے انگریزی کے مضامین، (جو پاکستان کے ایک مؤقرانگریزی کے اخبارمیں گزشتہ ٦ برس سے لکھے گیے ہیں)، باقائدگی سے پڑھ چکے ہیں ، وہ اِس بات سے بخوبی واقف ہیں ، کہ مصنف الطاف حسین اور ان کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کی طرز سیاست کو کئی بار ہدف تنقید بھی بنا چکا ہے ۔ایمان داری کی بات یہ ہے کہ، یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ ایک مضمون میں کرنا، نا ممکن ہے۔
بوجہ اختصار، جو واقعات، ٢٢ اگست ٢٠١٦ کے بعد رونما ہو ئے، اور تمام قارئین کے علم میں، بندہ ان سے اجتناب برتے گا۔ صرف ان نکات پر بندہ اپنے خیالات کا اظہار کرے گا، جو اس ناچیز کو غیر معمولی لگتے ہیں، یا جن نکات کو بندہ ایک غیر جانب دار تجزیہ نگار کے اپنی فہم اور فراست کے اعتبار سے قابل تذکرہ سمجھتا ہے:۔
١)۔ ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے، اس کے والدین اس کو ایک نام دیتے ہیں۔ وہ نام اس کی شناخت کا باعث بنتا ہے۔ آپ کسی کی بات سے لاکھ اختلاف کریں، لیکن کسی شخص کے نام لینے پر پابندی، یہ بات نہ صرف غیر فطری ہے، بلکہ غیر مذہبی بھی ہے۔ آپ انسان تو انسان، اگر اپنے گھر کسی پالتو جانور کو بھی لاتے ہیں، تو اسے کوئی نہ کوئی نام دیتے ہیں۔ پھر آپ اس کتے، بلی یا طوطےکو بھی اپنے دیے ہوے نام سے ہی مخاطب کرتے ہیں۔ اس طرح ایک جیتے جاگتے ذی شعور آدمی کو “بانی ایم کیو ایم” کہنا کچھ فاطرالعقل بات ہے۔ آپ کا اگر ان کے سیاسی نظریات سے بیر ہے پھر بھی اخلاقیات کا تقاضا اور مذہبی تعلیم ہمیں اپنے بد ترین دشمن سے بھی عزت اور تکریم سے پیش آنے کا درس دیتی ہے۔
٢)۔ جو بات قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ کیا ایک نعرے سے، جس کا کوئی منفی رد عمل عوام میں نمایاں نہ ہوا، کیا اس سے خدانا خواستہ کیا ملک ٹوٹ جایا کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک جذباتی شخص ہیں جو اپنے جذبات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے جملے کافی تند و تیز ہوتے ہیں جو کسی حد تک لوگوں کے لئے نا قابل برداشت ہوتے ہیں۔ شاید جناب اپنے اندر موجود ایک احساس محرومی کی وجہ سے ، کہہ ان کو فرزند زمین نہیں گردانا گیا ، بے حد جذباتی ہو جاتے ہیں ۔ یہ ان کا موقف ہے ، جس سے میں اور آپ اِخْتِلاف کا حق رکھتے ہیں ۔
کئی ممالک میں ان ملکوں کے پرچم تک کو نظر آتَش کرنے کی روایات موجود ہے ، جو اپنا احتجاج درج کروانے کے لیے لوگ کیا کرتے ہیں ۔ جس کا مقصد مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہوتا ہے ۔ قابل ذکر بات یہاں یہ ہے کہ نعرہ لگتے ہی ، ان کی تمام ساکھ کو راکھ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جس مقصد کے لیے ان کے کارکنان بھوک ہڑتال کر رہے تھے وہ پس پشت چلا گیا اور سب ٹی وی چینلز ان پر تبرہ کرنے اور مذمت میں مشغول ہو گئے ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ، ان کے چند کارکنان، جو ٹی وی چینلز پر بطور احتجاج حملہ آور ہوئے ، وہ امر انتہائی نا مناسب تھا ۔ اِس ناچیز کی ناقص رائے کے مطابق ، نعرہ کوئی بغاوت یا ملک دشمنی کا مظاہرہ نہ تھا ۔
٣) اس قابل اعتراض نعرے کوبنیاد بنا کر جو دہائی مچائی گئی ، اس کی اتنی کوئی خاص ضرورت نہ تھی ۔حکومت کے کسی ذمہ دار وزیر کو ان سے رابطہ کر کے ان کی شکایات کا ازالہ کیا جاناچاہئے تھا ۔ آپ اور میں ان سے لاکھ اختلاف رکھیں ، پر یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے ، کہ صوبہ سندھ کی شہری آبادی میں ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں ، جو اُس نےوالہانہ محبت رکھتے ہیں ۔ لاکھوں لوگوں کے وہ قائد ، رہنما اور لیڈر ہیں ۔ سندھ سے باہر رہنے والے پاکستانی، اکثر اس صوبے کی نزاکتوں سے لا علم ہوتے ہیں اور اکثر یہ بات نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ، ایسی کون سی بات ہے جو ان کے اتنے مداح اور پرستار ہیں ۔
سندھ سے باہر جو لوگ موجود ہیں وہ ان کو محض ایک سیاسی لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے ، کہ لاکھوں لوگوں کو ایک شناخت جس سے سے وہ محروم تھے ، وہ شناخت انہیں الطاف حسین صاحب نے فراہم کی ۔ اِس لیے ان کے لیے وہ ایک غیر معمولی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں الطاف صاحب کا ایک خاص مقام ، تکریم اور عزت ہے ۔ سندھ سے باہر رہنے والوں کے لیے لفظ مہاجربھی کافی عجیب ہے ۔ کیوں کے پنجاب میں بھی بہت سارے مہاجرین ،(جس میں راقم کے والدین بھی شامل ہیں)، مشرقی پنجاب سے لُٹے پٹے ، تقسیم ہند کے وقت آئے تھے ۔
بقول جناب آفاق خیالی ،( جو پاکستان پوسٹ نامی، امریکا سے جاری ہونے والے اخبار کے مدیر اعلی ہیں) مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والے اور پنجاب میں بسنے والے پنجابی ہی کہلائے ، جو افغانستان سے پشتون یا انڈیا سے پشتون آئے وہ پشتون کہلائے ، سندھی جو بھارت سے آئے اور سندھ میں بس گئے وہ سندھی کہلائے ، جو بلوچ ایران سے آئے اور بلوچستان میں بس گئے وہ بلوچ کہلائے، تو جو ہندوستان سے اردو بولنے والے آئے ، ان کو آپ کو مہاجر، تسلیم کرنا ہو گا اور ان کو بھی ان کی شناخت سے پکارنا ہو گا ۔
۔جاری ہے۔
One Comment