نواز غنی ملاقات کا اعلامیہ ایک حوصلہ افزا قدم ہے۔دونوں ملکوں نے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کاروائی کا اعلان کیا ہے۔خارجہ پالیسی کے باب میں یہ ایک اہم خبر ہے۔پاکستان میں بہت ساری چیزوں پر تنقید منع ہے۔یہ تنقید روکنے کے لیے باقاعدہ قوانین موجود ہیں۔اور ارباب ختیار گاہے زبانی کلامی بھی اس تنقید سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ان ممنوع چیزوں میں ایک فارن پالیسی بھی ہے۔سرکاری سطح پر خارجہ پالیسی کو ملکی سلامتی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔اس طرح یہ ایک مقدس درجہ اختیار کر لیتی ہے جس پر حق ازادی رائے کا اطلاق نہیں ہوتا۔
چنانچہ اس موضوع پر زبان کھولنے والے غدار یا ملک دشمن قرار پاتے ہیں۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سترہ اٹھارہ گریڈ کے بابو ہماری خارجہ پالیسی کے خدوخال بناتے رہتے ہیں۔اس مقدس اور خفیہ پالیسی پر انہیں نہ تو کسی کی تنقید سننی پڑتی ہے اور نہ ہی اپنے دفتر سے باہر اس کی کوئی عقلی وضاحت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے چنانچہ یہ لوگ ہمیشہ اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کی ترتیب دی ہوئی خارجہ پالیسی بہت کامیاب ہے۔
مسئلہ کشمیر پر ہماری خارجہ پالیسی اس کی ایک شاہکار مثال ہے۔ہمارا دعوی ہے کہ ہم گزشتہ ستر سال سے اس پالیسی پر گامزن ہیں۔اور یہ ایک انتہائی کامیاب پالیسی ہے۔حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر ہم آئندہ ستر سال بھی اس پالیسی پر گامزن رہیں تو بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔اورجو پالیسی ایک سو چالیس سال تک ایک مسئلہ حل نہیں کر سکتی اس کو کامیاب قرار دینے کا اتنا بڑا دل گردہ صرف وزارت خارجہ میں بیٹھے ہوئے کسی بابو کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح کی ہماری ایک اور شاہکار اور کامیاب پالیسی ہماری افغان پالیسی ہے۔اس پالیسی پر ہم گزشتہ ستر سال سے بڑی مستقل مزاجی سے قائم ہیں۔اس پالیسی پر ہم نے کبھی کسی کو رخنہ اندازی یا تنقید کی اجازت نہیں دی۔اس پر ہماری پارلیمنٹ میں کھل کر تنقید نہیں سکتی۔میڈیا میں اس پر گفتگو نہیں ہو سکتی۔یہ اسرار کے پردوں میں لپٹی ہوئی پالیسی ہے۔اس کے بارے میں عوام تو کیا خواص بھی کچھ نہیں جانتے۔اور اگر کوئی کچھ جانتا ہے تو بس اتنا جتنا کچھ بابو لوگوں نے اس بارے بتانے کی زحمت کی ہے۔
اور ان صاحبوں نے بس اتنا بتایا ہے کہ افغانستان کے حکمران طبقات روز اول سے ہی ہمارے دشمن رہے ہیں۔انہوں نے شروع میں تو پاکستان کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیاتھا۔اس کے برعکس افغان حکمران اکثر و بیشتر بھارت کے بہت قریب رہے ہیں۔اوور صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہ اکثر پاکستان توڑنے کے حامی رہے ہیں۔اس لیے یہ حکمران سرحد اور بلوچستان میں قوم پرست قوتوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ شروع دن سے ہی ہماری افغان پالیسی کا بنیادی نقطہ یہ رہا ہے کہ چونکہ افغان حکمران ہمارے دشمن ہیں لہذا ان سے کوئی معاملہ کرنے کے بجائے وہاں کے عوام سے براہ راست معاملات طے کیے جائیں۔اور دشمن حکمرانوں کو ہٹا کر اپنے دوستوں پر مشتمل حکومت قائم کی جائے اور اس حکومت کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔
اس بنیادی اصول کے طے ہو جانے کے بعد ظاہر ہے ہماری افغان حکمرانوں سے کیا بنتی ؟ البتہ ان حکمرانوں کے خلاف لڑنے والوں میں ہم اپنے دوست تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔اور ایک دفعہ تو ہم اپنے ان دوستوں پر مشتمل حکومت قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔یہ حکومت طالبان کے نام سے پوری دنیا میں بہت مشہور ہوئی مگر اس بھری دنیا میں صرف ایک آدھ ہی برادر اسلامی ملک تھا جس نے ہمارے کہنے پر اس حکومت کو تسلیم کیا۔مگر اس پہلے کہ ہم ان دوستوں کی موجودگی میں اپنے مفادات کے تحفظ کے بارے میں کچھ سوچتے، ہمارے یہ دوست اپنی حرکات کی وجہ سے یہ اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
اگر اس سلسلہ عمل سے ہم کوئی سبق سیکھتے تو وہ یہ تھا کہ ایسے نادان دوستوں سے عقلمند دشمن ہی بہتر ہوتے ہیں۔مگر یہ سبق چونکہ ہماری بنیادی افغان پالیسی سے متصادم ہوتا اور تبدیلی کا تقاضا کرتا اس لیے ہم نے یہ سبق سیکھنے سے انکار کر دیا اور واپس اپنی اصل پالیسی کی طرف لوٹ گئے۔اس پالیسی کا ایک انتہائی اہم قدم افغان سیل تھا جو ہم نے 1973 میں وزارت خارجہ میں قائم کیا تھا۔اس سیل کا بنیادی مقصد افغانستان کے اندر وہاں کے حکمرانوں کے خلاف اسلام پسند قوتوں کو منظم کرنا اور ان کی مدد کرنا تھا۔
جنرل کے۔ایم عارف نے اپنی کتاب میں اس سیل کی موجودگی اور اس کے اغراض و مقاصد کو تسلیم کیا۔ان ہی اغراض و مقاصد کے تحت جنرل نصیراللہ بابر اٖٖفغان بنیاد پرست قوتوں کو ڈھوڈنڈتے اور ان کی مدد کرتے رہے۔سوویت یونین کے اٖفغانستان میں داخل ہونے سے بہت پہلے بھٹو صاحب کے دور میں گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی کے پشاور میں ڈیرے ہماری اسی پالیسی کا عکس تھے۔افغانستان کے حکمرانوں کے بجائے ان کے مخالف اسلام پسند گروپوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی پالیسی پر ہم آج بھی عمل پیرا ہیں۔
اس پالیسی کے نتائج آئے دن مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔نواز شریف اور اشرف قاضی چاہے جتنی ملاقاتیں کر لیں، وعدے اور اعلانات کریں، جب تک ہم افغان پالیسی میں بنیادی تبدیلی نہیں لاتے اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا۔اور لفظ تبدیلی سے ہمیں خوف آتا ہے۔اس لیے اس باب میں ہم یوں کی ایک دائرے میں گھومتے رہیں گے۔
♦
2 Comments