پروفیسر مبارک حیدر
تہذیب کے آغاز سے ایک سوال تقریبا ہر معاشرہ میں پوچھا جا رہا ہے۔سب سے پہلے غالباً قدیم یونانیوں نے یہ سوال پوچھا۔آج سے ایک ہزار سال پہلے مسلم معاشرہ میں بھی یہ سوال ابھرا لیکن جلد ہی اسے منظر عام سے ہٹا دیا گیا۔ پھر تحریک علوم کے دور میں یورپی اقوام نے یہ سوال اٹھایا اور اس کا جواب دیا۔حال ہی میں سوویت یونین اور چین کے با اثر طبقوں نے بھی اس سوال کو تسلیم کیا ہے۔ ہمارے بہت سے مسلم نوجوان بھی سرگوشیوں میں یہ سوال پوچھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے اندر پنپنے اور پھلنے پھولنے کی خواہش موجود ہے تو ہمیں یہ سوال بلند آواز سے پوچھنا اور اٹھانا ہوگا۔
سوال سادہ سا ہے : کیا انسان نظریہ کی ترقی کے لئے بنا ہے یا نظریہ انسان کی ترقی کے لئے؟
لیکن اس سادہ سے سوال کا کوئی بامقصد جواب دینے سے پہلے ایک اور سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے: ترقی کیا ہے؟
کیا زندگی کو بچانا، اسے آسان بنانا اور پرامن بنانا ترقی ہے یا کچھ کو قتل کرنا، ان پر زندگی تنگ کرنا اور اپنے غلبہ کے لئے جنگ کرتے رہنا ترقی کا عمل ہے؟
پھر اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے: کیا سارے انسان برابر ہیں یعنی کیا سب کو آسودگی اور امن سے جینے کا برابر حق حاصل ہے؟
گرچہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے لئے ان سوالوں کی حیثیت بنیادی ہے، تاہم ہمارے مسلم معاشروں میں ان میں سے کسی سوال پر بحث نہیں کی گئی۔ہم میں سے کچھ لوگ جنہیں،ان کے جواب میں کوئی ابہام نہیں، سمجھتے ہیں کہ اتنے واضح معاملات پر بحث کی کیا ضرورت ہے ۔لیکن کیا مسلم معاشروں کے لئے یہ معاملات اتنے ہی واضح ہیں؟چلیں آخری سوال سے شروع کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ کے ایک مختصر مگر نہایت موثر اور جارح گروہ کاعقیدہ ہے کہ مسلمان اور ‘‘غیر’’ برابر نہیں نہ ان کے حقوق برابر ہیں اور یہ کہ مسلمان افضل و برتر ہیں۔یہی عقیدہ مسلمانوں کا دنیا سے اور اقلیتوں سے ٹکراؤ پیدا کرتا ہے۔ ایک طرف ‘‘اچھے’’ مسلم معاشرہ میں غیر مسلم اقلیتوں کے افراد سہمے ہوئے حیوانوں کی طرح چھپتے پھرتے ہیں تو دوسری طرف غیر مسلم مغربی معاشروں میں آباد ہونے والے مسلمان اپنے مذہبی مطالبات اور جارحانہ رویوں سے میزبان معاشروں کی زندگی مشکل بناتے رہتے ہیں۔
ہمارے ’’اچھے‘‘ مسلم معاشرہ کو دوسروں پر اپنے دروازے بند کرنے میں کمال حاصل ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ‘‘غیر’’ کے زمرے میں دھکیلتا رہتا ہے۔محض یہودی، عیسائی اور ہندو ہی ”غیر” نہیں، احمدیوں کو بھی باہر پھینک دیا گیا تھا۔ یہ الگ بات کہ احمدی ابھی تک اسلام کی متبرک سواری کے بند دروازوں کے ساتھ بے ٹکٹ سواریوں کی طرح لٹکے ہوئے ہیں۔شیعہ مسلک بھی پاک لوگوں کی اس سرزمین سے ”ناپید نسل” ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد باقی بچے دو گروہوں میں سے ایک کا صفایا ہو گا جس کا انحصار اس پر ہوگا کہ کونسا غالب ہے۔
یہ حالات ان عقائد کا نتیجہ ہیں جو ہمارے دینی اساتذہ نے مسلم ذہن پر کندہ کئے ہیں۔ یہ عقائد ہر سوال کا جواب فراہم کرتے ہیں لہذا ایک مسلمان کو ان اہم اور نازک سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ۔یہ عقائد کچھ یوں ہیں:
اول ۔مسلمان مرد نوع انسانی میں سب سے بہترین لوگ ہیں۔حتی ٰکہ انکی عورتیں بھی برابر کے انسان نہیں، مسلم عورت کو مسلم مرد سے نصف حقوق حاصل ہیں، جنّت میں صرف مسلم مرد داخل ہونگے جہاں انھیں غول درغول تازہ ساتھیوں کے ساتھ سدا بہار جوانی کی لذتیں حاصل ہونگی۔تاہم باقی انسانوں کی نسبت مسلمان عورتیں بھی افضل ہیں۔ اس سلسلہ میں کوئی اگر مگر نہیں۔ مسلمان مرد اللہ کی مخلوق میں سب سے پیارے اور انعام یافتہ ہیں چاہے ان کا کردار، اخلاقیات، صلاحیت اور افعال جیسے بھی ہو۔مسلمان چاہے بیکار لفنگا ہو، مفت بر نشئی ہو، اگر اسکا ایمان پختہ ہے تو وہ کسی کافر آئن سٹائن سے افضل و بہتر ہے۔ اللہ تمام مسلمانوں کو بخش دے گا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔
دوم۔ مسلمان کو خوشحال ہونا چاہئے جتنا بھی ہو سکے لیکن پر امن نہیں۔مسلمانوں پر فرض ہے کہ غیر مسلموں کی زندگی مشکل اور ذلّت آمیز بناتے رہیں کیونکہ وہ اسلام کے محفوظ گھر میں داخل نہیں ہوئے۔ جب تک دنیا میں ایک کافر بھی باقی ہے مسلمانوں کو امن قائم نہیں کرنا ہے۔مسلمانوں کو اپنی خوشحالی کے لئے جدوجہد کرتے رہنا چاہئے لیکن امن کے لئے نہیں کیونکہ انھیں کفر کے خاتمہ کے لئے قیامت تک لڑنا ہے۔
سوم۔ اللہ نے انسانوں کو اس لئے پیدا کیا تاکہ ان کا جینا اور انکے اعمال اس کے آخری پیغام کے مطابق ہوں جو اللہ نے پوری انسانیت کے لئے عربی زبان میں نازل فرمایا۔
اس نظریہ ہدایت کے لئے جینے اور مرنے کے علاوہ زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں۔ صرف اس نظریہ پر ایمان رکھنے والے ہی با مقصد زندگی جی رہے ہیں بشرطیکہ وہ اس کی فتح کے لئے کام کریں۔ زندگی کا کوئی اور حقیقی معنی نہیں۔
یہ عجب ہے کہ یہ نظریات پوری شدّت سے صرف خوشحال مسلم طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔ پر عظمت عرب شیوخ اپنا حلال سرمایہ علما کو فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ خوشحال اور ‘‘پڑھے لکھے’’ مسلمانوں میں یہ نظریات عام کریں۔تاہم شیوخ ، علما اور خوشحال مسلمان خود جہاد نہیں کرتے۔ وہ اسلام کی فتح مکمل کرنے کے لئے ایسے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جن پر اللہ کی رحمتوں کا کم کم نزول ہوا ہے۔
ان کم نصیب مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں سب کے لئے برابر مواقع کی خواہش اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔ اللہ نے مختلف لوگوں کے لئے مختلف حصّے مقرر کیے ہیں لیکن قربانی کا دروازہ سب کے لئے ایک جیسا کھلا ہے۔ اگر کوئی غریب مسلمان اللہ کی راہ میں جیتا اور مرتا ہے تو وہ بھی جنّت میں داخل ہو کر وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے جو اسے دنیا میں نہیں ملا۔
تاہم لگتا ہے کہ محنت کش اور غریب مسلمانوں کی اکثریت اس طرح نہیں سوچتی۔ وہ ان عقائد پر ایسے کٹر نہیں جیسے ان عقائد کا پرچار کرنے والے کٹر ہیں۔ در حقیقت کسی بھی معاشرہ کے محنت کش لوگ زیادہ نظریاتی نہیں ہوتے۔ خود اسلام کے اولین دور میں عام یعنی غیر قریشی مسلمان دین کی تفصیلات سے بہت کم واقف اور وابستہ تھے۔
سوویت یونین اور چین میں مارکسسٹ لیننسٹ نظریات مزدوروں اور کسانوں میں کبھی پہنچ ہی نہیں پائے۔ شاید یہی سبب ہے کے کمیونسٹ لیڈر ہمیشہ ‘‘وائٹ کالر پرولتاریہ’’ اور ‘‘پرولتاری دانشوروں’’ کے خواب دیکھا کئے۔
غالباً تمام مذہبوں اور نظریاتی خاکوں کا تعلق فلسفہ کے دور سے ہے۔ فلسفہ کی طرح یہ خاکے مکمل حقیقت کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں کائنات کے ایسے اجزا بھی شامل کر لئے جاتے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہ وہ کیا ہیں اور کہاں ہیں۔
فلسفوں اور نظریاتی خاکوں کا یہ حدیں توڑتا ہوا اعتماد ان کی سب سے بڑی کمزوری بن جاتا ہے، کیونکہ اس عمل میں واقعات اور واہمے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔لہٰذا سماج اور انفرادی زندگی میں نظریہ کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں سوال فطری ہے اور دنیا کے ساتھ پنپنے کے عمل میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔