منظور بلوچ
کچھ بھی تو نہیں ہوا؟ کونسی بڑی بات ہوئی ہو گی کہ فضاؤں میں ارتعاش پیدا ہو۔۔۔ زبانوں میں لکنت پڑ جائے۔۔۔ گریہ و زاری کی جائے۔۔۔سڑکوں کو رونق بخشی جائے۔۔۔ہر ایک شخص گھر سے نکل پڑے۔۔۔چین اور آرام کو تیاگ دیا جائے۔۔۔خوشی اور مسرت بھولی کہانی ٹھہرے۔۔۔ اخبارات کے اداریوں کی جگہ خالی ہو۔۔۔اور شہ سرخیاں سیاہ حاشیوں میں بند ہوں۔۔۔زندگی کا کاروبار رک جائے۔۔۔سڑکیں ہی گاڑیوں کی پارکنگ بن جائے۔۔۔بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز اور مارکیٹ ویران پڑے ہوں۔ لیکن۔۔۔ ایسا تو کچھ بھی نہیں۔۔۔
جب صبح جاگ کر اٹھا۔۔۔تو معمول کی بات تھی۔۔۔ہر روز کی طرح ایک اور دن۔۔۔ وہی سڑکوں پر ٹریفک کا شور، دھواں‘ بازاروں میں بے مقصد چہل پہل۔ سیکرٹریٹ اور دفاتر میں لوگوں کی آمد و رفت فائلوں کے پیچھے‘ گرتے پڑتے لوگ۔ دفاتر میں ایئر کنڈیشنڈ کے یخ بستہ ماحول میں فرعونیت کو اپنے اوپر طاری کئے ہوئے افسر‘ وزراء کا پروٹوکول‘ وہی میٹینگیں‘ وہی پرومشنز کے جھگڑے‘ وہی بجٹ کی دوہائیاں‘ وہی شاعروں اور ادیبوں کے پرانے لچھن‘ پی آر کے لئے افطاریاں‘ صحافی‘ ادیب اور شاعروں کی اشرافیہ کا حصہ بننے کی خواہش‘ قلم کا ہمیشہ کی طرح بندوق کے زیر سایہ کام کرنا۔۔۔ سڑکوں پر ڈبل سواریوں پر پابندیاں۔۔۔آگ برساتی دھوپ میں لوگوں کی تلاشیاں۔ موٹر سائیکلوں کی قطاریں۔۔۔ اور اخبارات اور میڈیا کی چیختی چنگھاڑتی سرخیاں۔۔۔بریکنگ نیوز۔۔۔پروپیگنڈا۔۔۔
ساحر لودھی جیسے لوگوں کی فرسٹریشن۔۔۔آج کے نئے اداکار۔۔۔جنہوں نے سیاست دانوں اور ٹی وی اینکرز کی شکل اختیار کر رکھی ہے۔ پل میں تولہ۔۔۔پل میں ماشہ۔ اپنے امداد نظامی کی طرح۔۔۔جو با صلاحیت تھے۔ چاہتے تھے تو ایک گھنٹہ میں کئی صفحے حکومت اور حکومتی شخصاتی کی تعریف و قصیدہ گوئی میں سیاہ کر ڈالتے۔۔۔کسی اور ہتھکڑی کی فرمائش پر اسی حکومت اور حکومتی شخصیات کے خلاف اتنے ہی صفحوں کی چارج شیٹ۔۔۔ حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے افراد کس طرح سے اپنی صلاحتیں ظلم کے نظام اور اس کی مشنری کو چلانے کے لئے فراہم کرتے ہیں۔۔۔ اور جب مرتے ہیں۔۔۔تو ان کو یاد کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ سبھی کچھ روتین۔۔۔کچھ اعلیٰ پائے کے دانش ور کئی ذمہ داریوں کے ساتھ شاداں۔۔۔کچھ نئے پراجیکٹ حاصل کرنے کے لئے سر گرم عمل۔۔۔
لیکن اتنے بڑے سانحہ پر خاموشی۔۔۔ ایسی خاموشی جیسے قبرستان میں ہو۔۔۔ بلوچستان میں لگنے والی آگ اور جنگ کا شاید دوسرا مرحلہ کبھی کا شروع ہو چکا۔۔۔ یا گزشتہ روز کا سانحہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ کس آسانی کے ساتھ ہدف لگا کر ایک تعلیمی دانش گاہ کو شہید کیا گیا۔ اس سے قبل تو صبا دشتیاری شہید ہوتے تھے۔بلوچ دانشور اور لاپتہ بلوچوں کے لئے آواز اٹھانے والے غیر بلوچ دانش ور سبین محمود کو شہید کیا گیا۔ شہید نواب اکبر خان بگٹی کی تصویر نے ایک نوجوان طالب علم کی جان لے لی۔ اس سے قبل تو یہی ہوتا آ رہا تھا کہ جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا۔۔۔ارباب اقتدار و اختیار۔۔۔کرپشن سے لے کر منشیات کی سمنگلنگ تک ہر ایک شے کو قبول کرنے پر آمادہ۔۔۔لیکن ہتھیار اٹھانے کے لئے زیر و ٹالرینس۔۔۔لیکن۔۔۔جنگ ختم نہیں ہوئی۔۔۔لمبی ہو گئی۔۔۔اس لئے اب دماغوں کی باری ہے۔۔۔
یہ جنگ کا دوسرا فیز ہو سکتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت ماضی قریب میں پروفیسر عبدالرزاق زہری کو خضدار میں ایک لینگوئج سینٹر کے قیام پر ہدف بنا کر شہید کیا گیا۔ مجھے جون ایلیا کی بات یاد آرہی ہے۔۔۔جب انہوں نے اپنے بھائی رئیس امروہی کے قتل پر کہی تھی۔۔۔ کہ قاتل جانتے تھے اس لئے انہوں بھائی کے دماغ کو نشانہ بنایا۔۔۔لیکن حیرت ہے کہ انقلاب کے لئے آواز اٹھانے والے‘ جب تحریک کو قبولیت کی صورت میں ڈھلتے دیکھنے لگتے ہیں۔ تو اس کی مخالفت میں مارے جاتے ہیں۔ ماضی کی بات ہے جب میر ہزار خان بجارانی نے بی پی ایل ایف بنائی۔۔۔وہ بلوچ قومی مزاحمتی جنگ کے پہلے جرنیل تھے۔ لیکن جب افغانستان سے واپس آئے تو مری بلوچ کی جگہ وہ بجارانی مری بن چکے تھے اور سرکار نے ان کو 100 لیویز والے بھی دے رکھے تھے۔
یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب خود ہزار خان بجارانی کی سوچ ایک نئے سانچے میں ڈھل رہی تھی۔ جب بلوچ مزاحمت ہوئی۔۔۔ تو سرکاری اور ان کے سرکاری اداروں کو بلوچوں کی تعلیم کا خیال آیا۔۔۔رسمی باتیں۔۔۔کچھ نعرے۔۔۔کچھ اخبارات کے اشتہارات کچھ شاعر ادیبوں کے لئے وظیفے۔۔۔اور اسے ہی تعلیم سمجھا جاتا رہا۔ ہزار خان کی طرح ڈاکٹر مالک بلوچ بھی تعلیم کے خوگر رہے۔۔۔وزیراعلیٰ بنے تو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دی۔۔۔نقل کی بیخ کنی ان کی اولین ترجیح ٹھہری۔۔۔ جب ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا جا رہا تھا۔ تو ایکسپریس اخبار کا وہ ضمیمہ یاد آیا۔۔۔جس میں ظالم قصیدہ گوؤں نے انہیں نیلسن منڈیلا کا نام دیا تھا۔
ہمارے ہاں نیلسن منڈیلا کے ساتھ جتنی زیادتیاں ہوئی ہیں۔ شاید ہی کہیں ہوں ۔ جی ہاں۔۔۔ڈاکٹر مالک بلوچ کی تربت میں رہائش گاہ سے متصل ڈیلٹا سکول کو بلڈوز کر دیا گیا۔۔۔یہ ایک سکول یا تعلیمی ادارے کی بات نہیں تھی بلکہ ایک علمی دانش گاہ کا معاملہ تھا۔۔۔ جس نے بلوچ بچوں اور بچیوں کو قلم اور کتاب سے محبت کا درس دیا۔۔۔اور یہ بڑا جرم تھا۔۔۔اتنا ہی بڑا جرم۔۔۔ جتنا کہ صبا دشتیاری کا تھا۔۔۔ چند لوگوں کو یہ حق کیسے اور کیونکر دیا جا سکتا ہے کہ وہ علم کی روشنی کو غریبوں اور گدانوں تک پہنچائیں۔ ہزار خان بجرانی کی طرح ڈاکٹر مالک بلوچ بھی اپنی ہی سوچ کے مخالف نکلے۔
ان کی پارٹی کے ایک رہنماء حلیم بلوچ نے سوشل میڈیا پر اپنی پارٹی کے رہنما کا دفاع کیا تھا کہ ان کی جان اور ان کے خاندان کو خطرہ تھا۔۔۔کیونکہ گزشتہ الیکشن میں اسی سکول کے احاطے سے ان کی رہائش گاہ پر ہینڈ گرینڈ پھینکا گیا تھا۔۔۔بات سیکورٹی کی تھی۔ حلیم بلوچ کا موقف جائزتھا۔ کیونکہ جو شے بھی خطرے کا باعث بنے اسے بلڈوز کرنا چاہیے۔ ڈیلٹا کو بلڈوز کر دیا گیا۔۔۔اچھا ہی کیا گیا۔۔۔لیکن تعلیم اور تعلیمی اداروں کی بات کرنے والوں کو کیا ہوگیا؟ ان کے نعرے کچھ اور تھے؟
لیکن حکمرانوں اور اشرافیہ کی باتوں پر باور کون کرتا ہے؟ جتنا خطرہ بندوق سے ہوتا ہے اس سے زیادہ خطرہ تو قلم اور کتاب سے ہے۔۔۔ کیونکہ قلم اور کتاب ایک زرخیز ذہن کی آبیاری کرتے ہیں۔ ایک سوچنے والے دماغ کی پرورش کرتے ہیں۔ جب سوچ بدل جاتی ہے۔ تو لب او لہجہ بھی بدل جاتاہے۔ جب لوگ سوچنے لگتے ہیں۔ تو سوال بھی اٹھانے لگتے ہیں۔ اور اشرافیہ کو گرے پڑے لوگوں کا سوال اٹھانا کبھی اچھا نہیں لگاہے۔یہی وجہ ہے کہ قبل از مسیح میں سقراط کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ اور ان کو زہر کا پیالہ دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے۔
حلیم بلوچ درست کہتے ہیں کہ بھلا خطرے کو کیسے برداشت کرنا چاہیے۔ اسی لئے سیکورٹی رسک بننے والے ہر معاملہ کو ’’ ڈیلٹا‘‘ کی طرح بلڈوز کر دیا جاتا ہے۔ حکمرانوں نے جو کچھ کیا۔۔۔وہ تو ان کی مجبوری تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟ دانش ور کیوں خاموش ہیں؟ اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا۔۔۔؟ کسی اخبار کی شہ سرخی نہیں بن سکی۔۔۔ نہ ہی اس پر موم بتیاں جلانے والوں کو اپنی موم بتیاں بجھانے کا خیال آیا۔۔۔ صبا دشتیاری جیسے اساتذہ اگر قابل برداشت نہیں۔۔۔تو کیا اب علمی دانش گاہیں بھی قابل برداشت نہیں۔ کیا ان کو بھی ہدف بنا کر گھات لگاکر یونہی شہید کیا جاتا رہے گا۔
جس طرح ’’ڈیلٹا‘‘ کی شہادت کا سانحہ رونما ہوا ہے۔ جس روز یہ سانحہ رونما ہوا۔۔۔اسی کے اگلے روز میں بلوچستان یونیورسٹی میں تھا۔۔۔میرے کولیگ زور زور سے ہنس رہے تھے۔ قہقہے لگا رہے تھے۔ حالات معمول کے مطابق تھے۔ کسی غم و غصے کا اظہار نہیں پایا جاتا تھا۔ کسی کے بازور پر کالی پٹیاں نظر نہیں آئیں۔۔۔ راقم نے صبا دشتیاری کی شہادت پر ایک چینل سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ نواب بگٹی کی شہادت کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ لیکن آج’’ڈیلٹا‘‘ کے سانحہ کو کیا نام دوں؟ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ علمی اداروں کو بھی شہید کیا جا سکتا ہے۔ کتابوں کا قتل عام بھی ہو سکتا ہے۔۔۔
ہاں ماضی میں ابن رشد کے ساتھ بھی ایسا بھی ہوا تھا۔ جب ان کو شہر کی جامعہ مسجد کے سامنے سب کے سامنے بے عزت کیا گیا۔ ان کی کتابیں چن چن کر ڈھونڈی گئیں۔ اور ان کو نذر آتش کیا گیا۔ اس موقع پر ان کا ایک شاگرد بچوں کی طرح رونے لگا۔ تو ابن رشد نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے رونے سے ان کے (حکمرانوں کے)ارادے بدل جائیں گے۔ تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔۔۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ان کے اس عمل سے علم و دانش کا سلسلہ رک جائیگا۔۔۔تب بھی تمہاری یہ سوچ غلط ہے۔۔۔ لیکن یہاں تو کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں۔۔۔اور شاید۔۔۔دانش ور اور عوام زیادہ سمجھ دار ہوں کہ رونے سے کیا ہوگا۔۔۔ اسی لیے شاید ڈیلٹا کی شہادت پر نہ کوئی سوگ ہوا۔۔۔ نہ ہی میڈیا میں بریکنگ نیوز آئیں۔۔۔ نہ ہی سیاہ حاشیے لکھے گئے۔
لگتا ہے کہ اب کی بار نشانہ باندھنے والے ہاتھوں کی بجائے دماغوں کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام ہے۔۔۔ اور ساحر لدھیانوی ہی نے اپنی ایک طویل نظم میں کہا تھا۔ جس کے کچھ مصرعوں کا مفہوم یہ تھا کہ پچھلی بار جنگ میں گھر جلے تھے۔۔۔اب کی بار ایسا نہ ہو کہ پرچھائیاں بھی جل جائیں۔۔۔ لگتا ہے کہ پرچھائیاں جلنے کے وقت سر پر آن کھڑا ہے۔۔۔لیکن دور دور تک کوئی حسن مجتبیٰ‘ وجاہت مسعود‘ امرسندھو‘ٰ۔۔۔ساحر لودھی۔۔۔ اوریا مقبول جان۔۔۔ سلیم صافی۔۔۔ عامر لیاقت۔۔۔عطاء الحق قاسمی۔۔۔ ہارون رشید۔۔۔نظر نہیں آ رہے۔ ویسے تو بلوچستان میں ہر واقعے پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ شاید۔۔۔بلکہ یقیناً۔۔۔ یہ چونکہ فہمیدہ اور عالم لوگ ہیں۔۔۔ان کو معلوم ہے کہ روز روز کے سانحات پر احتجاج یا سوگ منانا فضول ہے۔ بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا۔
♦