علی احمد جان
صرف طاقت اور جبر ہی مردانگی کیوں ہے نفاست اور نرمی کیوں نہیں ہو سکتی ہے یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش جنوبی ایشیا کے ایک مایہ ناز سیاسی گھرانے کے واحدزندہ بچنے والے مرد وارث ذوالفقار علی بھٹو جونئیر کو ہے۔ اپنے دادا کے ہم نام ذوالفقار علی بھٹو جونئیر میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ہیں جن کی مردانہ وجاہت اور دلیری ان کا طرہ امتیاز رہااور اس کی بے وقت موت کی وجہ بھی۔
امریکہ میں مقیم نوجوان ذوالفقار علی بھٹو جونئیر کا انتظار پاکستان میں موجود ان کےوالد اور دادا کے بہت سارے جیالوں کو ہے جو ان کے نام سے بہت ساری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ ان جیالوں کو یقیناً ان کی سات منٹ کی ڈاکومنٹری فلم سے مایوسی ہوئی ہوگی جو ان کے ہاتھ میں سلائی کڑھائی کرنے والی سوئی کے بجائے تلواریا تیر دیکھنا چاہتے ہیں یا ناخنوں پر نیل پالش لگی انگلیوں کو محو رقص ہونے کے بجائے مکا بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں نرمی، صلہ رحمی، رقص اور رنگوں سے محبت جیسی خصوصیات کے حامل مردوں کو بطور راہنماقبول نہیں کیا جاتاجو مردانہ اوصاف کہلانے والی صفا ت یعنی بے رحمی، ظلم، سنگ دلی اور سخت مزاجی سے عاری ہوں۔
ہندوستان میں جب مسلمانوں نے پہلی سلطنت کی داغ بیل ڈالی تو شہاب الدین غوری نے اس کو اپنے خریدے ہوئے غلام ایبک کے حوالے کیا۔ ایبک ترکی زبان میں چاند کے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو حسن اور نزاکت کی صفت ہے نہ کہ دلیری اور شجاعت کی ۔ ایبک نے غوری کی موت کے بعد ہندوستان میں ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد رکھی ، اپنا سکہ جاری کیا اور قطب الدین یعنی دین کا مینار کہلایا۔ اسی ایبک کے خریدے غلام التمش نے اپنے آقا کی روایت جاری رکھی نہ صرف خود بادشاہ بنا بلکہ عنان سلطنت اپنے نالائق بیٹوں کے بجائے اپنی ہونہار بیٹی رضیہ سلطانہ کے حوالے کیا جس نے بطور پہلی مسلمان خاتون حکمران کے حکومت کی۔
اس دور میں غلام ان کے حسن اور نفاست کی صفات کی وجہ سے بھی خریدے اور رکھے جاتے تھے جن کو اپنے آقاؤں کی خواب گاہوں اور خلوت تک رسائی ہوتی تھی، ایبک اور التمش ایسے ہی غلام تھے۔
اس تمہید کے باندھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ حکومت چلانے کے لئے شاہی خون ہونا یا سنگ دل ہونا ضروری نہیں بلکہ عقل و دانش اور معاملہ فہمی جیسی اوصاف بہت ضروری ہوتی ہیں۔بہادری ، شجاعت اور دلیری بھی ایک ہنر کی طرح سیکھی اور اپنائی گئے اوصاف ہیں۔ قطب الدین ایبک اور التمش سمیت کئی سلطان حکومت کرنے کے لئےنہیں بلکہ بطور ماشکی (سقا) خریدے گئے تھے جو بعد میں حکمران اور سپہ سالاربنے۔
ہمارے معاشرے کی بد بختی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ماضی میں رہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ گزرا ہوا وقت لوٹ کر آئے گا۔ ہمیں محمد علی جناح اور بھٹو کا ہر دم انتظار رہتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آیئڈیل راہنما کوبھی ان کا ہم خیال ہی نہیں بلکہ ہم شکل بھی دیکھیں۔ کبھی ہمارے رہنما جناح صاحب والی قراقلی ٹوپی پہن کر ان کی نقالی کرتے ہیں اور کبھی بھٹو کی طرح تقریر کے دوران مایئک توڑکر ادا کاری۔
ہم آج کے حقائق میں رہنے کے بجائے گزرے کل کی داستانوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ شائد ہم نے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر میں بھی بھٹو کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جبکہ یہ نوجوان ایک الگ شخصیت کا مالک ہے جس کا انھوں نے برملا اظہار بھی کیا۔ بلاول زرداری ، حسن اور حسین نواز کو بھی اپنے والدین کے ہم خیال اور ان سے متفق دیکھنے والوں کو جلد یہ احساس ہوگا کہ ہر شخص اپنی الگ شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا دوسرا المیہ اس میں پائی جانے والی منافقت ہے۔ لوگ صرف اپنے جنسی میلان کو ہی نہیں چھپاتے بلکہ اپنی دوسری تیسری شادی اور اس سے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی راز رکھتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کے ایسے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لئے کبھی کبھار پارلیمنٹ سے بازار حسن تک جیسی کتابیں بھی لکھی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مغرب میں جاکر ہماری اشرافیہ کھل کھیلتی ہے تو اس کے بارے میں میڈیا کے زریعے پتہ چل بھی جاتا ہے جو ایک طرح کے انکشافات ہو جایا کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں ایک صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ خلوت میں باقاعدہ ساڑھی پہن کر رقص کرنے کے شوقین ہیں تو اس کے بعد وہ بھی دوبارہ نظر نہیں آئے۔
اس معاشرے کا تیسرا المیہ یہ ہے کہ یہاں لوگ دوسروں کی جنسی کہانیوں اور مختلف جنسی میلانات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ایسے رجحانات اور میلانات کی موجودگی سے صریحاً انکاری ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے جب پاکستان کے دارالحکومت سے متصل پیرودھائی میں موجود بچوں اور لڑکوں کے قبحہ خانوں کا انکشاف کیا تو بجائے اس رجحان کی موجودگی پر غور کرنے اور اس پر بات کرنے کے ایسی تنظیموں کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ لاہور سے چند کلو میٹر دور قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی فلمیں بنا بنا کر دنیا بھر میں دیکھنے کے لئے پیش کی جاتی رہیں اور ہم انٹرنیٹ پر ایسی فلمیں دکھانے والی سائٹس کو بند کرکےایسے کسی مسئلے کے وجود سے ہی انکاری رہے۔ ہمارے ہاں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکوں کے ساتھ مرد شادیاں کرتے ہیں اور نکاح کی رسم بھی ادا ہوتی ہے جس میں شرفاء شرکت بھی کرتے ہیں لیکن اس سے انکاری ہیں۔
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے علاوہ سب کو نیک اور شریف دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے حکمران عوام کو نیکو کار دیکھنا چاہتے ہیں اور عوام حکمرانوں سے یہ امید رکھتے ہیں۔ مسجد کے پاس سبیل کے ساتھ رکھے پانی پینے کے کٹورے کو زنجیروں کے ساتھ باندھ کر رکھنے اور نماز کے دوران جوتے غائب ہونے کے واقعات کے بعد اب متعفکین کے موبائل فون اور نقدی کی دوران اعتکاف چوریاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ بحیثیت مجموعی یہ معاشرہ اخلاقی تنزلی کا شکار ہے لیکن اس بات کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ ہماری مثال اس شتر مرغ کی ہے جو اپنا سر صحرا کی ریت میں چھپاکر یہ سمجھتا ہے کہ مصیبت ٹل گئی ہے۔ اگر اس ملک کی اشرافیہ میں سے کسی نے پہلی دفعہ سچ بول کر ایک بڑی سچائی کو آشکار کیا ہر تو بجائے اس پر طعنہ ذنی کرنے کے اس حقیقت کو تسلیم کرکےاس پر زیادہ فراخدلی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایک ایسے معاشرے میں جو اندر سے منافقت، ریا کاری، جھوٹ اور فریب سے بھرا ہو وہاں ذوالفقار علی بھٹو جونئیر کا اپنے جنسی میلانات اور مشاغل کے بارے میں کڑوا سچ کا ہضم ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ جس جنس کو پیدا ہوتے ہی ماں باپ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکال کر مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور دن کے اجالے میں بھی اندھیری قبر میں دفن ہونے کی اجازت نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے نے خود کو اس جنس کے ساتھ جوڑ کر بہت بڑی قربانی دی ہے ۔
اس حقیقت کو ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح چھپاکر وہ اس ملک میں کبھی بھی سیاسی افق پر نمودار ہوسکتے تھے جس کے امکانات ان کے اس سچ کے اظہار کے بعد تقریباً ناپید ہوچکے ہیں۔ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بھٹو کے اس دلیرانہ اور جرات مندانہ سچ کے اظہار سے اس سماج میں پیدا ہونے والے ہزاروں لاکھوں ایسے انسانوں کے لئے برابری کے حق کے ساتھ جینے کی امید پیدا ہوچکی ہے۔ امید ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اس لازوال قربانی کی حامل سچائی کا تمسخر اڑانے کے بجائے ایک معاشرتی حقیقت کے طور پر تسلیم کرے گا اور غور کرے گا۔
♣
5 Comments