آصف جیلانی
ایک سو سال قبل ، پہلی عالم گیر جنگ کے نتیجہ میں مشرق وسطی کے جو حصے بخرے ہوئے تھے،مسلمانوں کا اتحاد بکھر گیا تھا اور ان کی قوت پارہ پارہ ہوگئی تھی ، اب پھر ایک بار مشرق وسطیٰ اسی نوعیت کے شدید زلزلے کی زد میں ہے ۔ زلزلہ کہنا قدرے نرم لفظ ہوگا ، کیونکہ یہ زلزلہ صرف مشرق وسطیٰ ہی کو تہہ و بالا نہیں کرے گا بلکہ مشرق وسطیٰ سے دور دور علاقوں کو تاراج کردے گا۔
کئی مہینوں سے جاری داعش کے گڑھ مغربی موصل میں داعش کے خلاف ، امریکی اور عراقی فوجوں ، کرد پیش مرگہ اور شیعہ ملیشیا کی مشترکہ جنگ موصل کی آٹھ سو چالیس سالہ پرانی مسجد جامع النوری کی مسماری کو عراق میں داعش کی شکست قرار دیا جارہا ہے۔ تین سال قبل اسی مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر ابو بکر البغدادی نے اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا۔ موصل کی جنگ میں ایک ہزار سے زیادہ شہریوں کی ہلاکت اور سات لاکھ افراد کے بے گھر ہونے کے بعد، داعش کے خلیفہ تو دو ماہ پہلے یہاں سے فرار ہوگئے تھے ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شام میں رقہ میں ایک فضائی حملہ میں مارے گئے ،لیکن ان کی سپاہ برابر مزاحمت کر رہی تھیں ۔
عراقی فوج کا کہنا کہ داعش نے مسجد جامع النوری کو جس کے جھکے ہوئے مینار کی وجہ سے یہ علاقہ الحدبہ (کبھ) کہلاتا تھااس وقت بارود سے اڑا دیا جب عراقی فوج اس کے قریب پہنچی تھی۔ عراقی فوج کا کہنا ہے کہ وہ یہ مسجد عید سے پہلے بازیاب کرانا چاہتی تھی تاکہ عید کا دوگانہ اس مسجد میں ادا کیا جاسکے۔ دوسری جانب داعش کے ترجمان عماق کا کہنا ہے کہ یہ مسجد ، امریکی بمباری سے مسمار ہوئی ہے۔ بہرحال مسجد جامع النوری کی مسماری ،داعش کی شکست سے تعبیر کی جارہی ہے اور یوں یہ عراقی اور اس کی حلیف فوج کی فتح قرار دی جارہی ہے۔
لیکن عراق میں گذشتہ 14 سال سے جب سے امریکا اور برطانیہ نے اس پر حملہ کیا ہے ، ہر فتح اپنے پیچھے ایک نئی تباہی کا عذا ب چھوڑ گئی ہے۔ 2003میں صدام حسین کا تختہ الٹنے اور ان کی ہلاکت ، ایک عظیم فتح قرار دی گئی تھی اور برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے اعلان کیا تھا اب دنیا میں امن کا راج ہوگا۔ لیکن دنیا نے بہت جلد دیکھ لیاکہ صدام حسین کے خاتمہ کے بعد جو خلا پیدا ہو اس میں القاعدہ کے انتہا پسند ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے، جب کہ صدام کے زمانہ میں انہیں سراٹھانے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور پھر القاعدہ کے بل پر داعش کا عذاب نہ صرف پورے عراق میں بلکہ پورے مشرق وسطی اور اس کے پرے چھا گیا۔
موصل میں داعش کی شکست کے بعد سب سے بڑا خطرہ عراق کے اتحاد کو لاحق ہے۔ امریکی اور اس کے اتحادی ایک عرصہ سے عراق کو تین مملکتوں میں تقسیم کرنے کے لئے بے قرار تھے۔ تیل سے مالا مال کرد علاقے کو امریکی اپنی سرپرستی اور تحویل میں لے کر اسے آزاد کردستان کی حیثیت سے عراق سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور اسی منصوبہ کے تحت ، ستمبر میں کردستان کی آزادی کے لئے ریفرنڈم ہونے جارہا ہے۔
عراق کے دوسرے علاقوں کو تیل کی دولت سے محرومی کا خطرہ ہے اور ترکی، آزاد کردستان کے سخت خلاف ہے کیونکہ اسے خطرہ ہے کہ عراقی کرد شام کے کردوں کے ساتھ مل کر ترکی کے کردوں کی مدد کریں گے جو ترکی کی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ امریکا کرد ستان پر کس قدر نچھاور ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ تین سال قبل جب داعش کی سپاہ نے موصول پر قبضہ کیا تھا او ر وہ کردستان کی جانب بڑھنے والی تھیں کہ امریکیوں نے انہیں کردستان میں جانے سے روکنے کے لئے زبردست بمباری کی تھی اور وہ داعش کو روکنے میں کامیاب رہے تھے۔
امریکا ، عراق کو مزید دو مملکتوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے ۔ ایک وسطی اور جنوبی عراق میں شیعہ مملکت اور دوسری موصل ، رمادی اور فلوجہ کے علاقہ میں سنی مملکت۔ صدام حسین کے زمانہ میں طاقت ور عراق سے سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل کو رہا ہے جسے وہ ایک طاقت ور محاذ گردانتا تھا۔ عراق کی جنگ کے بعد اس محاذ کا جو تیا پانچا ہوا ہے وہ اسرائیل کے لئے باعث جشن و طرب رہا ہے۔
اسرائیل ، شام کو بھی ایک بڑا محاذ تصور کرتا ہے ۔ دو وجوہ کی بناء پر ۔ ایک تو شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے جسے دائمی طور پر وہ اپنے تسلط میں رکھنا چاہتا ہے کیونکہ یہ دریائے اردن کا منبع ہے یوں وہ دریائے اردن کے پانی پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ دوم ، شام ،تہران سے لے کر لبنان تک ایران کی زیر اثر زنجیر میں ایک اہم کڑی ہے۔ اسرائیل اس کڑی کو توڑنا چاہتا ہے اور اسی مقصد کے لئے شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر امریکا اور اس کے اتحادی بشمول اسرائیل کے بشار الاسد کے خلاف خانہ جنگی میں ناکام رہے جیسے کہ آثار نظر آرہے ہیں تو پھر یہ شام کو دو مملکتوں میں تقسیم کرنے کے جتن کریں گے۔ ایک شیعہ علوی مملکت اور دوسری سنی مملکت۔ امریکیوں کاکہنا ہے کہ پچھلے چھ سال کی خانہ جنگی کی وجہ سے انتقال آبادی کے بعد ، شام کو شیعہ اور سنی اور دوسری برادریوں میں تقسیم کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ شیعہ مملکت دمشق کے مغرب میں لبنان کی وادی تک قایم ہو سکتی ہے۔ لیکن شمال مشرق میں زرخیز علاقہ پر شدید تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔
لیکن مشرق وسطی کے سیاسی مستقبل کے لئے ایک نیا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ جس کے مضمرات بہت دور رس ثابت ہوں گے ۔ روزنامہ ٹایمز نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کی حکومت کے درمیان اسرائیل کے قیام کے 69سال کے بعد پہلی بار اقتصادی تعلقات استوار کرنے کے لئے خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں۔فلسطینیوں نے سعودی عرب کے اس اقدام پر سخت تشویش ظاہر کی ہے اور اسی کے ساتھ غم غصہ بھی ۔
روزنامہ ٹایمز کے مطابق ، دونوں ملک بتدریج اقتصادی تعلقات قائم کریں گے ۔ پہلے اسرائیلی کمپنیوں کو سعودی عرب میں اپنے اسٹور کھولنے کی اجازت دی جائے گی اور اسرائیلی ایر لاینز ایل ال کو سعودی عرب کے اوپر سے پروازوں کی اجازت ملے گی۔ اس طرح اسرئیلی ایر لاینز کو ایندھن بچانے کا موقع ملے گا ۔ یہ واضح نہیں کہ سعودی عرب میں اسرائیلی اسٹورز کھولنے کی اجازت کے عوض سعودی عرب کو کیا سہولیتیں ملیں گی۔
گذشتہ سال مئی میں اسرائیلی اخبار نے خبر دی تھی کہ سعودی عرب اور اس کے حلیف مصر اور اردن نے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر سمیت کئی شخصیات کے توسط سے اسرائیل کو پیغامات بھیجے تھے کہ سعودی عرب کے نئے اقدامات کی روشنی میں مشرق وسطی کے امن مذاکرات دوبارہ شروع کئے جائیں ۔ گذشتہ سال جولائی میں سعودی عرب کے ایک ممتاز ریٹائرڈ جنرل انور عشقی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ڈایئرکٹر جنرل ڈورر گولڈ اور مرد غائی سے ملاقاتیں کی تھیں ۔
بلا شبہ سعودی عرب کے فرماں روا کی اجازت کے بغیر یہ دورہ ممکن نہ تھا۔ 1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ سعودی عرب اسرائیل کے پاسپورٹ کو تسلیم کرتا ہے اور جو شخص بھی اسرائیل کے ویزا پر اسرائیل کو سفر کرتا ہے اسے گرفتار کیا جا سکتاہے۔
فلسطینیوں کو ان خبروں پر سخت تشویش ہے خاص طور پر فلسطین کے مسئلہ کے حل کے بغیر سعودی عرب کے اسرائیل سے اقتصادی تعلقات استوار کرنے کے اقدام پر۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان اس قربت پر فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں ارض فلسطین پر اسرائیلی پچاس سالہ تسلط اور زیادہ مضبوط ہوگا۔ لیکن اسرائیلوں کا استدلال ہے کہ انہوں نے جب مصر اور اردن سے صلح کے سمجھوتے کئے تھے تو اس وقت فلسطین کا مسئلہ رکاوٹ نہیں بنا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ 2015میں جب سے سعودی فرما روا کے تیس سالہ صاحب زادے محمد بن سلمان ، وزیر دفاع اور وزیر معیشت مقرر ہوئے ہیں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں اہم اقدامات کیے ہیں اور اب چونکہ ولی عہد اول شہزادہ نایف کی برطرفی کے بعد محمد بن سلمان ولی عہد کے عہدہ پر فایز ہوئے ہیں اس کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں تیزی سے پیش رفت ہوگی۔
بتایا جاتا ہے کہ محمد بن سلمان کے صدر ٹرمپ کے داماد کشنر کے ساتھ بے حد قریبی تعلقات ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ امریکا کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے موجودہ قریبی دور کے محرک محمد بن سلمان ہیں جو ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے کے فور بعد واشنگٹن گئے تھے اور ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاض میں مسلم سربراہوں کے اجلاس کے انعقاداور اس میں ٹرمپ کے خطاب کی تجویز اسی ملاقات میں محمد بن سلمان نے پیش کی تھی۔ اسلامی فوجی اتحاد کے محرک بھی محمد بن سلمان ہیں۔ اسرائیل بے حد خوش ہے کہ ریاض کی سربراہ کانفرنس میں ایران کو اس علاقہ میں دھشت گردی کا ذمہ دار قرار دیاگیا۔
اسرائیل کو امید ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی استواری سے ایران کے خلاف اتحاد کو تقویت پہنچے گی۔ در ایں اثناء اسرائیل کے سینیر وزیروں نے سعودی عرب کے شاہ سلمان پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں ۔ اسرائیل کے انٹیلی جنس اور ٹرانسپورٹ کے وزیر یسرایل کاٹز نے شاہ سلمان سے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یاہو کو سعودی عرب کے دورہ کی دعوت دیں اور نئے ولی عہد کو تل ابیب بھیجیں ۔ اسرائیل کے وزیر دفاع ایوڈور لبر مین نے بھی سعودی عرب سے سفارتی تعلقات استوار کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ان تعلقات کی بدولت اس پورے علاقہ میں ایک نئی تبدیلی واقع ہوگی۔ یہ تبدیلی تو بلاشبہ اسرائیل کے حق میں جائے گی اور اس ہی کے مفادات کو فروغ دے گی۔
اکیاسی سالہ سعودی فرما روا شاہ سلمان عبد العزیز کی صحت خراب ہے اور در حقیقت امور سلطنت ان کے صاحب زادے محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ خبریں بھی ہیں کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز بہت جلد تخت سے دست بردار ہو جائیں گے اور ان کے صاحب زادے تخت نشین ہوں گے۔
♥
One Comment