پاکستان ہر شخص کے عید کا تہوار منانے کے ’’نرالے ‘‘ طریقے ہیں ۔مدرسے کا ’’ملاں‘‘ اب ماضی والا ملاں نہیں ہے،بلکہ اب یہ’’ چھیناجھپٹی‘‘کرنے والا ’’ڈان‘‘ بن چکا ہے۔رمضان المبارک میں سب سے زِیادہ کاروبار اِسی ’’ملاں‘‘ نے کیا ہے ۔ہمارے محب وطن ٹی ۔وی چینلز نے جس طرح رمضان میں ’’رُوحانی منڈی‘‘ لگائے رکھی ،اِس سے تو ہم سب با خبر ہیں ۔مولوی طارق جمیل ، مولوی منیب الرحمن اور ابتسام الٰہی ظہیر سمیت دیگر مولوی نے خوب پیسے کمائے۔
ٹیلی ویژن والوں نے بھی ان نامی گرامی علماء کو مدعو کر کے قوم کو رہنمائی دینے کے ساتھ ساتھ اشتہاروں کی صورت میں خوب دولت کمائی ۔مقامی سطح پر بھی پاکستان کے مولویوں نے زکوۃ ،صدقات اور فطرانہ کے حوالے خوب سے خوب ’’مناقب ‘‘ بیان کیے ۔اورعوام کو حصول جنت کا موقع دے کر اِن لوگوں نے اپنے لیے پورے سال کا ’’مال و متاع‘‘صرف ایک مہینے میں جمع کر لیا ۔ عید کے چاند کا انتظار کر نے والے ان ملاؤں کی جیب اس وقت ’’گرم ‘‘ ہے ۔
دوسری طرف ہمارے حکمران طبقات عید کے موقعہ پر دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔شہزادوں کی طرح زندگی گزارنے والے ہمارے حکمرانوں نے اپنی تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ کرلیا ہے۔حکمران کہتے ہیں اِن کاگزارہ نہیں ہوتا ،مہنگائی بڑھ گئی ہے ۔اب عید پر تو ان کو مزید ’’بونس‘‘ ملے گا ۔اگر نواز شریف کی بات مان لی جائے کہ وزراء کا مہنگائی کے اس دور میں گزارہ نہیں ہوتا ،اس لیے اِن کی تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر تھا ،تو سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا غریب آدمی کا گزارہ ہوتا ہے؟؟؟۔کیااسحاق ’’ڈالر‘‘ غریب آدمی کے گھر کا بجٹ پندرہ ہزار میں بجٹ بن کر دکھائے گا؟؟۔ غریب کوپندرہ ہزار روپے بھی بطور تنخواہ نہیں ملتے !۔کیا ہماری سرکار نے غریب کو پندرہ ہزار روپے تنخواہ دِلوانے کا بندوبست کیا ہے ؟۔
’’شریف حکومت ‘‘نے بجلی کی قیمت بڑھا کر اور اس میں ’’جنرل سیلز ٹیکس‘‘ شامل کرکے غریب کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔عید آنے سے پہلے ہزاروں روپے کا بجلی کا بل بھیج کرغریب آدمی پر بہت بڑا ظلم کیا ہے !۔خوشیوں پر کسی کا’’اجارہ ‘‘ تو نہیں ہے!۔خوش حالی ،خوش قسمتی اُورٹھاٹ باٹھ مخصوص لوگوں کے ساتھ ’’نتھی ‘‘ کیوں ہے؟؟؟ ۔اس طرح کے سوال مجھے ہر عید پر تنگ کرنا شروع ہوجاتے ہیں! ۔غربت کوجرائم کی ’’ ماں‘‘ کہا جاتا ہے ۔غربت میں ’بغاوت‘ جنم لیتی ہے ۔اور بغاوت میں نوازشریفوں سے معمر قذافیوں جیسا سلوک ہوتا ہے ۔
کیا غربت کو ’’بڑھاوا‘‘ دینے والا نواز شریف اپنے انجام سے باخبر ہے؟۔سچی بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر دوسر ا فرد ’’سفید پوش‘‘ ہے۔جو کماتے ہیں اِن کو ملتاکچھ نہیں ۔اُور جو کماتے نہیں وہ لاکھوں روپے وصول کر رہے ہیں۔عید کے موقعہ پر ’ڈیفنس اور ماڈل ٹاؤن کا ’امیر‘آدمی حسب سابق اچھے کپڑوں ،پرفیومز،اعلیٰ جوتے اور اعلیٰ برانڈ کا موبائل خریدے گا ۔اِس کے علاوہ نیلے رنگ کے ’’نئے کرنسی نوٹ‘‘بھی بینکوں سے نکلوائے جائیں گئیں۔عید کے موقع پر سر مایہ دار وں کی عیش و عشرت، رقص و سرود،نازو اندازاور شوخی و شرارت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔شرا ب کے بغیر ان کے دسترخوان نامکمل ہوتے ہیں۔
لیکن جب کسی غریب آدمی کو ’’مئے نوشی ‘‘ کرتے دیکھ لیا جائے تو ’’قوانین ‘‘ اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ او ر پھر پاکستان میں ایک ایسا انتہائی غریب طبقہ بھی ہے جس کے پاس ’’گزارہ‘‘ کرنے کے لیے راشن نہیں ہے ۔ان لوگوں کے سروں پر چھت بھی نہیں ہے !۔یہ غریب اور لاچار لوگ عید کیسے گزارے گا ؟۔کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے!!!! ۔’سوسائٹیوں‘ میں مقیم’’ مہذب شہری ‘‘فقیر لوگوں کو’’ فطرانے‘‘ کے نام پر چند ’ٹکے‘ دے کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد کی کشادہ اور پکی سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں میں بیٹھ کر سفر کر نے والے غریبوں کا دکھ کیسے جان سکتے ہیں!۔ٹیکس چوروں ،ذخیرہ انوزوں،ملاؤں اور حکمرانوں کے تو عید پر ’’وارے نیارے ‘‘ ہوتے ہیں ۔غریب آدمی ایک کلو مرغی کا گوشت خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتا ۔مہنگاہی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہمارا متوسط طبقہ پیسے کماتا کم ہے اخراجات زیادہ ہیں۔ایسے میں عید کی خوشیاں ہم سب سے روٹھ گئی ہیں!۔
سماجی انصاف کئی دائروں میں رہنمائی کر تا ہے ۔لیکن ہمیں سماج میں معاشی انصاف کی فراہمی کو سماجی انصاف کے پیرے میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح کسی بھی ریاست کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی مملکت میں لوگوں کی زندگی کو آسان بنائے نہ کہ لوگوں کو خود کشوں پر مجبور کرے۔جب کسی چیز کی قیمت بہت زیادہ ہو گی تو غریب آدمی اس کوخریدنے کی سکت کیسے رکھ رسکتا ہے ؟۔اس لیے جب اس کے اندر احساسِ محرومی بہت زیادہ حد تک بڑھ جاتا ہے تو وہ موت کو زندگی پر ترجیح دینا شروع ہو جاتا ہے۔
اس لیے ایک مثالی معاشرے میں ریاست قیمتوں کا تعین کرتے وقت معاشرے کے غریب لوگوں کے مفادات کو مقدم رکھتی ہے۔مگر پاکستان میں عید کے موقع پر چیزوں کی قیمتیں بہت بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے غریب آدمی عید کی خوشیاں منانے سے محروم رہتا ہے ۔کیونکہ جتنے پیسے کسی غریب کے پاس ہو تے ہیں ان پیسوں سے کچھ اخرید نہیں جا سکتا ۔ اور پھر عید کے موقع پر سب سے زیادہ نمود و نمائش دکھانے والے ’’سرمایہ داروں‘‘ کی پاس اپنی دولت کوبچانے اور اپنے آپ کوبرترثابت کرنے کے لیے ’’تاویل ‘‘ کا اِنبار لگا ہوا ہے ۔
کیا اِن کو کوئی پوچھنے والا ہے ؟۔پاکستان میں اگر کوئی ’’لب ‘‘ کھولے تو اُسے قتل کر دیا جاتا ہے !۔اس لیے عید کے موقعہ پر ’’سلیم شہزاد‘‘ کی بیوہ کسمپرسی کی تصویر بنی ہوئی نظر آئے گی !۔ہمارے ملک میں لوگوں کو آزادی اِظہارِ رائے کا کبھی حق نہیں دیا گیا ۔مذہبی انتہا پسندوں،ریاست کے اہلکاروں اور سرمایہ داروں کی طرف سے ’’سچ‘‘ بولنے کے جرم کی پادا ش میں کئی لوگوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔بہت سے لوگ ابھی لاپتہ ہیں۔سرکار کو لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی فکرمندی ہی نہیں ہے!!۔شہیدوں،اسیروں اُو رلاپتہ افراد کے لواحقین کس طرح عید منائیں گئیں؟؟؟۔
اِس کا جواب پاکستانی ریاست کو دِینا ہو گا !۔عید کے موقعہ پر ’’غربت‘‘ کے دھمال کودیکھنا ہوتو عید کے دن سے ایک دو دن پہلے کے اخبار اُٹھا کر دیکھ لیجئے۔لوگ کس طرح خود کشیاں کر تے ہیں؟۔کس طرح تن ڈھاپنے کے لیے کپڑے نہ ملنے کی وجہ سے لوگ ’’زہر ‘‘ کی گولیاں کھا کر زندگی کے غموں سے چھٹکاراہ حاصل کرتے ہیں!۔پاکستان میں کوئی خوشی ہو یا تہوار عید ہویا کرسمس کوئی نہ کوئی غم ہی ملتا ہے ۔کہیں کچی شراب پینے سے لوگ مر جاتے ہیں۔کہیں ’’گڈ فرائیڈے ‘‘ کے موقعہ پر ماں اپنے جگر گوشوں کو قتل کر کے خود کشی کر لیتی ہے ۔
ہمارے صاحب ثروت لوگ ،خیرات مانگنے والے ملاں اور دیگر سرمایہ داری کے حامی لوگ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو ’’دَس اُنگلیاں‘‘ دیں ہیں ،ہر بندہ کما کر کھا ئے !۔اس رہنمائی اور نصیحت کے کیا معانی ہے ؟۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ’’نجی منڈی ‘‘ میں آ ج تک کسی کو بغیر رشوت اور سفارش کے کو کام ملا نہیں ہے ! ۔سرمایہ دار کتنے چالاک ہیں ایک ہاتھ سے ’’کچھ ‘‘دَے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے رہے ہیں۔خوشی کے موقع پر ذِہنی محنت کرنے والوں کے پاس بھی ’’ سفید پوشی ‘‘ کے مناظر ہی نظر آتے ہیں۔
کیونکہ ’’گوشواروں‘‘ اور ٹیکسوں کی شکل میں بعد ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ واپس حکمرانوں کے پاس چلا جاتا ہے ۔اُور حکمران عوام کا خون پسینہ ایک کرکے کمائی ہو ئی دولت عالمی ساہوکار اداروں کو بطور ’’سود‘‘دَے دِیتے ہیں ۔جو سرمایہ باقی بچ جاتا ہے اِس کا زیادہ تر حصہ کرپشن اُو ر اُقربا پروری کی نذ ر کر دیا جاتا ہے !۔’’خوشی‘‘ کے موقع پر ’’حقیقی خوشی ‘‘حاصل کر نے کے لیے ہم سب کو اِس استحصالی نظام کے خلاف جدو جہد کرنی ہو گی ۔تبھی ہم’’ حقیقی خوشی‘‘ حاصل کر سکتے ہیں!!!! ۔
♣