ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
اب جب ہم رمضان اور ممکنہ متوقع عید کی صورتحال کو پاکستان اور اڑوس پڑوس میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کابل، پارہ چنار، کوئٹہ، پشاور، چمن ، ھیلمند، خوست، وغیرہ میں عید کا چاند تو نظر آیا ہے، سینکڑوں لوگوں نے مساجد میں آکر چاند نظر آنے کی شہادت دی ہے، لیکن ملک کے میدانی تہذیب کے پلو سے بندھی ہوئی رویت ہلال کمیٹی نے آج بروز ہفتہ نشست رکھنے یا ٹکٹکی باندھ کر چاند دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔
ادھر پشاور، وزیرستان، میرعلی، سوات، چمن، پشین، غرض یہ کہ ڈیورنڈ لائین پر واقع ہر گاوں، شہر، و قصبے میں لوگوں نے اپنی آنکھیں آسمان کی وسیع و عریض پیشانی پر گاڑھنی شروع کردیں۔ رویت ہلال کمیٹی کے چونچلوں سے بے خبر یہاں کے لوگوں کو ابھی تک آسمان سے اچھی خاصی شناسائی ہے، اس سال چاند، شوال، صفر، یا زولحج کا چاند آسمان کے کس نکڑ سے برآمد ہو گا وہ انہیں پہلے سے پتہ ہے، اور پھر شہر، گلی، کوچوں اور اخبارات کے بے نور صفحات سے ناشناس ان لوگوں کی آنکھیں دور تک بینائی رکھنے کا خاصا رکھتی ہیں، ہم نے ضعیف چرواہے کی دور کی نظر کمال دیکھی ہے، جبکہ نوجوان کوہ زاد کو دیا سلائی پرونے میں ناکام دیکھا ہے۔ بہرحال ان تفصیلات سے مدظلہ منیب الرحمان اور انکے مراعات یافتہ قریب اندیش ساتھیوں کا کیا۔
دلچسپ امر اس وقت بھی سامنے آیا جب مفتی منیب اینڈ کمپنی نے رمضان کا چاند دیکھنے کیلئے بلائے گئے اجلاس کو نماز مغرب کے فورا بعد برخاست کردیا تھا۔ ویڈیو میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کو کان میں ایک مصاحب کچھ بتا دیتے ہیں، ذرا سا کسمسانے کے بعد خود بتا دیتے ہیں کہ پشاور سے شہادت آنے نہ پائے، اور اگر آبھی جائے تو پشاور کے پٹھانوں کی کیا وُقعت۔ اپنا روزہ رکھیں ہمارا ہم پر چھوڑ دیں۔ ویسے دین میں کوئی جبر تو ہے نہیں، اور منیب الرحمان صاحب کی بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ رمضان اور عید کو سی پیک یا کالا باغ ڈیم نہ بنایا جائے۔
اس جانب مولانا پوپلزئی کا منظر عام سے غائب ہونا یا تائب ہونا بھی اس چاند کی سیاسی معیشت کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے رقت آمیز انداز میں پوسٹ کیا ہے کہ، تم کتنے پوپلزئی پکڑو گے پشتونخوا کے ہر گھر سے کم ازکم ایک عدد پوپلزئی تو نکلے گا۔واقعی اگر ایسا ہی ہوا تو ظاہر ہے اتنے ہیں منیب الرحمان بھی جڑانوالہ ، ٹنڈوم محمد خان، اُچ شریف وغیرہ سے جنم لیں گے۔ پھر تو ہر شب شب برات ہوگی اور ہر روز عید ۔
لیکن سوشل میڈیا ٹکٹکی باندھ کر لکھنے اور پڑھنے والوں کو بھی اللہ پوچھے۔ پتہ نہیں بال کی کھال اتارنے میں انہیں کیا سکون ملتا ہے، نہ دین کا فائدہ اور دنیا کا۔ ان گنت نکتہ چین بے چینی سے زہر افشانی شروع کردیتے ہیں۔ سوال اُٹھتا ہے کہ عید کا چاند کہاں دیکھا گیا؟؟ ترنت جوابات نکلتے ہیں کہ پشاور، سوات، پارہ چنار، چمن ، کوئٹہ اور دیگر ۔ پھر کوئی انجان بن کر پوچھتا ہے کہ خیر سے یہ چاند بین علاقے کہاں واقعہ ہیں؟ کوئی بھی سیدھا جواب نہیں دیتا۔
کچھ لوگ اسے جنوبی ایشیا کے نکڑ پا واقع بتاتے ہیں، کوئی سطح مرتفع، حارہ ، وغیرہ، کوئی کہتا ہے ہاں یہ ہیں تو پاکستان میں فی الحال، کچھ کہتے ہیں کہ یہ تو متنازعہ ہیں، اور چند ایک تو اسے مقبوضہ بتانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ البتہ ہم جھٹک کر ان طفلان مکتب کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں بڑوں کی باتوں میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے، کیا ہوا جو ایک روزہ اضافی رکھ لیا اسلاف نے کیا اس دن کیلئے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔
لیکن پھر کسی اور کونے سے ایک شریر لیکن سنئیر طفل مکتب سوال اٹھا لیتا ہے کہ اسلام میں شہادت یا گواہی کن کی نہیں مانی جاتی؟ ہم ششدرہ رہ جاتے ہیں، ہمیں تو صرف شادیوں کا علم ہے، ہمیں کیا پتہ ، پھر برین سٹارمنگ، ادھر اُدھر سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں چلیں عورت بیچاری کی تو آدھی گواہی ہے ، دو عورتیں ایک مرد کے برابر ، اور یہ قاسم علی خان مسجد میں مجتمع مردوں کے جم غفیرکے بارے میں کیا بیان ہے؟۔ ہم کہتے ہیں ہوتا ہو گا کچھ نہ کچھ۔ کسی اور کونے سے پھر جواب نمودار ہوجاتا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہی چاند گوجرانوالہ ، سیالکوٹ اور کوٹ لکپت میں کیوں نمودار نہیں ہوتا؟۔ہاں اس میں چاند کا قصور ہے، اسے میدانی علاقوں میں پہلے نظر آجانا چاہئے ، کیوں کہ خوشیوں پر بھی سب سے پہلے انہیں کا حق ہے۔
لیکن بیچوں بیچ ایک کہنہ مشق فیس بکی پوسٹ مین نے سوال اُٹھا یا کہ کیا غلام کی گواہی قابل قبول کی جاتی ہے؟ ہم نے چپ سادھ لی، کہ ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کا بھی کوئی عالم، جو اس طالع آزما کا کچھ کرسکے۔ لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ یہی سوال تو مجھ سے کسی اور شخص نے بھی کیا تھا۔ میں فیس بک کے اس کج بحثی سے نکل کر سوچنے لگا، آخر یاد آیا میرے ایک بلوچ کلیگ نے ایسا ہی سوال کیا تھا ۔رمضان کے تیسرے دن کامریڈ نے جاتے جاتے مجھ سے پوچھا تھا کہ شاہ جی !آپ کو یاد ہے فلاں سال تک ہمارے یونیورسٹی کے فلاں فلاں کنٹین روزوں میں بھی کھلے ہوتے تھے، میں نے کہا ہاں ہاں یاد ہے وہ زمانہ جہالت!۔
پوچھا نہیں جناب ! وہ زمانہ جہالت تونہیں تھا، وہ ایک فکری اور نظریاتی آدرش کی جنگ تھی۔ہاں ہاں وہ سوویت روس کے گرنے سے ہی نظریے کا تیا پانچہ ہوگیا، ہم نے تیز چہل قدمی کرتے ہوئے کہا۔بولے! پتہ ہے ہم روزہ نہ رکھنے کی کیا دلیل دیا کرتے تھے؟ میں نے پوچھا کیا؟ بولے! کہ غلاموں پر روزہ فرض نہیں ہوتا۔
میں اُن کا منہ تکتا رہ گیا، غلاموں کی گواہی، غلاموں کا روزہ، اپنے سر ایک جھٹکا دے کر اس شیطانی خیال کو جھٹک دیا، کامریڈ کی ہدایت کیلئے دل ہی دل میں دعا کی، لیکن اندر ہی اندر سے عقیدے کے شفاف دودھ میں شک کی ایک مکھی عود آئی تھی۔غلامی، گواہی، اور روزے شک کے تکون کے گرد تین ہندسے میرے دماغ مین گھومنے لگے۔
میں نے خود کو قائل کرلیا کہ پشاور، ہیلمند، کابل، پارہ چنار میں عید کیوں نہ ہو، یہاں پر رسم حنا بندی تو رمضان میں ہی پوری ہوچکی، سینکڑوں گھروں کے ہزاروں سوگواروں کو عید کی زیادہ ضرورت ہے ۔
♦