ظفر آغا
لیجئے، اس سال ہندوستانی مسلمانوں کی عید جمتہ الوداع کے روز ہی ہوگئی ، چونکیئے مت ، اگر آپ کو اس بات پر شک ہے تو اخبار ’ انڈین ایکسپریس ‘ کی حسب ذیل مترجم خبر ملاحظہ فرمایئے۔ ’ انڈین ایکسپریس ‘ اس سرخی کے ساتھ لکھتا ہے :۔
’’ پندرہ برس کا بچہ مارا گیا، بھائیوں نے بتایا ہم کو’’ بیف ایٹر‘‘ کہا ۔‘‘ مذکورہ اخبار پھر تفصیل یوں بیان کرتا ہے ’’ جب پندرہ برس کے جنید خان نے جمعرات کے روز اپنے گھر بلبھ گڑھ سے اپنا سفر دہلی کے لئے شروع کیا تو اس کا خیال تھا کہ وہ عید کے لئے اپنا کرتا پاجامہ، نیا جوتا اور کچھ عطر وغیرہ لے کر گھر لوٹے گا۔ لیکن اس کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ دہلی تک عید کی خریداری کا یہ سفر خود اس کی موت پر ختم ہوگا۔جنید نے خریداری کے بعد اپنے بڑے بھائی ہاشم اور دو دوستوں کے ساتھ دہلی سے متھرا جانے والی ٹرین کے ذریعہ گھر واپسی کا سفر شروع کیا 7-8 بجے شب کے درمیان دس بارہ لوگوں کے ایک گروہ نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے بھائی ہاشم اور اس کے دوست شاکر جو اس کے ساتھ تھے وہ شدید زخمی ہوگئے۔
شاکر جو اس وقت آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سنٹر کے ٹراما سنٹر میں زیر علاج ہے اس نے ’ انڈین ایکسپریس ‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آوروں نے ٹرین میں گھستے ہی جنیداور ہم لوگوں کے لباس کا مذاق اڑانا شروع کردیا اور ہم کو’’ بیف ایٹر ‘‘ بھی کہا۔ انہوں نے ہماری گول ٹوپی اُتار کر پھینک دی ، ہماری داڑھی نوچی اور ہم کو گائے کا گوشت کھانے والا کہا۔ ہم کو تھپڑیں ماریں اور ہم جیسے ہی اپنے شہر بلبھ گڑھ پہنچے انہوں نے چاقو نکال لئے، وہ عمر میں ہم سے کافی بڑے تھے اور بس ہم کچھ نہ کرسکے۔ اس حملے میں جنید کی موت ہوگئی ، شاکر اسپتال میں ہے۔
اب آپ کو یقین آیا کہ جمعتہ الوداع کے روز مسلمانوں کی عید کیسے ہوئی؟ جی ہاں جنید کا قتل کوئی یوں ہی نہیں ہوا، یہ قتل ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر تم فخر سے اپنا تہوار مناؤ گے تو ہم تم کو جنید بنادیں گے اور یہ سب کچھ بہت سوچی سمجھی سازش کے ذریعہ ہورہا ہے اور اس کا مقصد طرح طرح سے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ باور کروانا ہے کہ تم دوسرے درجہ کے شہری ہو، تمہارا اپنا کوئی تشخص نہیں ہے، تم کو خوشی سے اپنا مذہب اور اپنا تہوار منانے کی بھی آزادی نہیں ہے۔ تب ہی تو کبھی اخلاق کو گزشتہ سال بقرعید کے موقع پر گھر میں گھس کر مارا گیا تھا، پھر پہلو خاں کو گاؤ رکھشکوں نے پیٹ پیٹ کر ماردیا۔ اب آئے دن ایک نئے پہلو خان جیسے واقعہ کی خبر آتی ہے، اور اب عید کے چاند سے تین روز قبل جنید کا قتل کردیا گیا۔
یہ ایک منظم سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر خو ف کا شکار بنانا ہے تاکہ وہ خاموشی سے اپنے اوپر ہونے والے تمام مظالم قبول کرلیں اور اس طرح باقاعدہ دوسرے درجہ کے شہری ہوکر رہ جائیں۔ اب مسلمان کریں تو کیا کریں؟ ان کی اپنی کوئی قیادت آزادی کے بعد تھی ہی نہیں۔ خود کو مسلم قائد کہنے والوں نے جس طرح کی خاموشی لازم ہوئی ہے اس سے ظاہر ہے کہ خودساختہ اور نام نہاد مسلم قیادت خریدی جاچکی ہے۔ علماء کرام میں اس بات کی دوڑ لگی ہے کہ کون پہلے بی جے پی کے دربار میں اپنی حاضری پیش کرے۔ ان حالات میں مسلمان کریں تو کیا کریں اور جائیں تو جائیں کہاں۔؟
سب سے پہلے تو مجموعی طور پر محلہ کی سطح پر اور گھر گھر اور ہر جگہ یہ بات ہونی چاہیئے کہ مسلمانوں کو اپنے اوپر خوف لادلینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں یوں ہی عرض نہیں کررہا ہوں، میں یہ مشورہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی بنیاد پر کررہا ہوں۔ ہر مسلمان اس بات سے واقف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اسلام کا اعلان کیا تو آپؐ کو ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کرنی پڑی، حد یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا تک پھینکا گیا اور آپ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش ہوئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ڈرے نہیں اور نہ ہی آپؐ نے کسی قسم کے تشدد کا راستہ اپنایا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور سے سبق لے کر صبروتحمل کے ساتھ بے خوف ہوکر جینا ہوگا۔
بے خوف ہونے کے یہ معنی نہیں ہے کہ آپ بے وجہ لوگوں سے جھگڑا کرنے لگیں۔ بے خوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پہلو خاں اور جنید جیسے واقعہ سے گھبرا کر سکڑ اور سمٹ نہ جائیں بلکہ اپنے ہوش و حواس برقرار رکھتے ہوئے ایک نارمل انسان کی طرح اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی بہتر بنانے کیلئے جو جدوجہد ہوتی ہے اسے جاری رکھیں۔ دوسرے دن نام نہاد مسلم قائدین سے گریز کریں ، جو مسلمانوں کو فرقوں میں باٹنے کی کوشش کررہے ہیں اس سلسلہ میں میں یہ عرض کردوں کے مسلمانوں کو شیعہ، سنی اور بریلوی، دیوبندی فرقوں میں بانٹنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن مجھے تجربہ اور خبروں کے ذریعہ اچھی طرح خبر ہے کہ ایسے افراد سوداگر ہیں ان کی اپنے خود کے فرقہ میں کوئی عزت نہیں ہے۔ لہذا آپس میں لڑوانے کی جو کوشش ہے اس کو بھی ناکام بنائیں۔
لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ آپ خاموشی سے ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہیں بلکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا آپ کا آئینی حق ہے۔ آپ کو بھی آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ آواز نعرہ تکبیر کے ساتھ نہیں اور نہ ہی صرف مسلمانوں کی آواز ہونی چاہیئے ، یہ یاد رکھیئے کہ آپ نے اپنی جدوجہد کو مذہبی رنگ دیا تو فوراً نعرہ تکبیر کے جواب میں جے سیا رام کا نعرہ لگے گا اور پھر ہندو۔ مسلم تناؤ اور پھر جو حشر ہوگا آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔
یہ بھی یاد رکھیئے کہ اس نظام میں اکیلے آپ پر ظلم نہیں ہورہا ہے آپ کے ساتھ ساتھ دلت اور پسماندہ قوموں پر بھی مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اس لئے ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملایئے اور پہلے ان کی ہر جدوجہد میں شامل ہوں اور پھر ان کو اپنے ساتھ شامل کیجئے اور خوف سے گریز کیجئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کی جس جدوجہد میں مسلمان دوسروں سے پیچھے رہ گیا ہے اس جدوجہد کو تیز کردیں۔ یعنی مسلمان تعلیم میں سب سے پیچھے ہے اور اس لئے اس کا یہ حشر ہے۔ اپنی اولاد کو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر تعلیم دلوانی پڑے تب بھی تعلیم دلوائیں اور پھر دیکھیئے وہ ہر مصیبت کا حل خود کیسے نکال لیں گے۔
جنید کے ساتھ جو ہوا وہ محض جنید کا قتل نہیں ہے بلکہ جنید کا قتل پوری ہندوستانی مسلم قوم کا نفسیاتی قتل ہے۔ اس لئے اس بات پر بھی احتجاج ہوناچاہیئے، یہ احتجاج جلسے، جلوس کے بجائے آپ عید کے روز ایک سیاہ پٹی باندھ کر بھی کرسکتے ہیں۔ مناسب یہی ہوگا کہ اس سال عید کی نماز سیاہ پٹی باندھ کر پڑھیں تاکہ آپ کا شمار زندہ قوم میں ہوسکے۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا
♦