دہشت گردی کا خاتمہ:امریکہ اور انڈیا کا ایک ہی موقف ہے

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزير اعظم نريندر مودی نے پاکستانی حکومت پر زور ديا ہے کہ وہ اس بات کو يقينی بنائے کہ اس کی سرزمين ديگر ممالک کے خلاف حملے کرنے کے ليے استعمال نہ ہو۔ يہ خبر امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں مودی اور ٹرمپ کی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے پير اور منگل کی درميانی شب جاری کی گئی۔ دنيا کی دو سب سے بڑی جمہوری قوتوں کے سربراہان نے ديگر ممالک پر بھی زور ديا کہ علاقائی اور بحری تنازعات پر امن انداز ميں اور بين الاقوامی قوانين کے مطابق حل کيے جائيں۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ہفتے اور اتوار کے روز نريندر مودی امريکا کے دو روزہ سرکاری دورے پر تھے۔ اتوار کی شام ہونے والی یہ ملاقات دونوں لیڈروں کے درمیان ہونے والی پہلی سرکاری ملاقات تھی۔ اس ملاقات ميں امريکا کے صدر نے بنيادی طور پر بھارت ميں سرگرم امريکی کمپينوں کے ليے ٹيکس کٹوتيوں کا مطالبہ کيا جبکہ بھارتی وزير اعظم نے علاقائی سطح پر دہشت گردی کے معاملے کو پر زور طريقے سے اٹھايا۔

بھارتی وزير اعظم کے دورے سے کچھ روز قبل واشنگٹن انتظاميہ نے يہ عنديہ ديا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں ان کے اتحادی ملک پاکستان کے خلاف زيادہ سخت رويہ اختيار کيا جا سکتا ہے۔ پھر مودی کی آمد سے چند ہی گھنٹے قبل امريکی دفتر خارجہ نے متنازعہ کشمير ميں سرگرم باغی تنظيم حزب المجاہدين کے رہنما سيد صلاح الدين کے خلاف پابنديوں کا اعلان کيا، جس کا نئی دہلی حکومت نے فوری طور پر خیرمقدم کیا۔ بعد ازاں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ميں مودی نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کا ذکر کيا، جس ميں وہ غالباً پاکستان کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

دوسری طرف پاکستان نے امریکا کی جانب سے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دینے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں بھارتی فورسز سے برسر پیکار عسکریت پسند اپنی آزادی کے لیے جائز جد وجہد کر رہے ہیں۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق ،’’بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں کشمیری عوام کی اپنی آزادی کے لیے ستر سال سے جاری جدو جہد جائز ہے۔ پاکستان کشمیری شہریوں کی اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کی حمایت کرنے والے افراد کو دہشت گرد قرار دینےکو مکمل طور پر ناجائز سمجھتا ہے۔

ولسن سينٹر ميں جنوبی ايشيائی امور کے ايک ماہر مائيکل کوگلمين کے مطابق اگر دہشت گردی کی بات کی جائے، تو مودی اور ٹرمپ کا موقف ايک ہی ہے۔ ’’دونوں ہی اس کا خاتمہ چاہتے ہيں چاہے جہاں بھی ہو۔‘‘ کوگلمين کے بقول صلاح الدين کے خلاف پابنديوں کا اعلان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ شدت پسندی کے انسداد کے ليے واشنگٹن اور نئی دہلی انتظاميہ مل کر کام کر رہی ہيں۔ تاہم تاحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس کے نتيجے ميں پاکستان کے خلاف زيادہ سخت موقف اختيار کيا جائے گا يا نہيں۔ بھارت پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ گاہيں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان ايسے الزامات رد کرتا ہے۔

امريکی و بھارتی رہنماؤں کی اتوار کو ہونے والی اس ملاقات ميں افغانستان ميں قيام امن اور استحکام کی ضرورت پر بھی زور ديا گيا۔ بھارت نے افغانستان ميں تين بلين ڈالر کی سرمايہ کاری کر رکھی ہے۔ دريں اثناء نئی دہلی اور واشنگٹن کے مابين ايک اور اہم معاملہ چين کا ہے۔ اب تک ٹرمپ بيجنگ سے قربت کا مظاہرہ کرتے آئے ہيں کيونکہ وہ چاہتے کہ چين شمالی کوريا کو قابو کرے۔ تاہم اسی دوران امريکا اور بھارت دونوں ہی چين کی علاقائی سطح پر عسکری قوت ميں اضافے پر تحفظات رکھتے ہيں جبکہ پاکستان چين کا اہم اتحادی ملک ہے۔

DW

Comments are closed.