ایم کو ایم-چند مشاہدات (تیسرا حصہ)۔

دلاور اصغر

سب سے پہلے،  یہ ناچیز تمام قارئین سے رمضان کے دوران چند پیشہ ورانہ اور نجی مصروفیات کی بنا پرغیر حاضر ہونے، اور اس موضوع پر تاخیر پر بصد احترام معافی کا خواستگار ہے۔   لیجیے جناب سلسلہ وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں دوسرے حصّے میں منقطع ہوا تھا۔

 بعض اوقات یہ ناچیز ہمارے ٹی وی چینلوں پر اہم خبر کے نام پر نشر  ہونے والی خبروں پر بے ساختہ ہنس پڑتا ہے ۔ ایک ایسی ہی اطلاع ، ایک مشہور اینکر پرسن ، جو بے انتہا سرعت کے ساتھ اپنے پروگرام میں باتیں کرتے ہیں ، نے پیش کی۔ وہ کسی ملزم کی گرفتاری کے بارے میں تھی۔ ایک ملزم گرفتار ہوا اور ملزم کا تعلق ایم کو ایم لندن کے عسکری ونگ سے نشر کیا گیا ۔

 یہ بھی خوب رہی ۔ لندن کی ایک آفس بِلڈنگ میں، ایم کیو ایم کا بین الاقوامی دفتر موجود ہے ۔ جس کی تصاویر لوگ عموماً دیکھتے رہتے ہیں ۔ یہاں ایک معصومانہ سا جملہ مناسب رہے گا کہ، یہ دفتر 23 اگست 2016 کو نہیں قائم ہوا۔ گزشتہ برسہا برس سے یہ دفتر اسی جگہ موجود ہے۔  اب اس دفتر میں ایک عسکری ونگ  کا موجود ہونا، جو لندن سے بیٹھ کر کراچی میں موجود تخریب کاروں کی اسکائپ یا فیس بُک لائیو پر تربیت کر رہا ہو ، تھوڑی نا قابل یقین، بلکہ یوں کہئے کچھ فاطر العقل بات لگتی ہے ۔

 دوسرا یہ کہ جو عملہ وہاں موجود ہے ، ان میں سے تو زیادہ تر لوگ سیدھے سادے سویلین ٹائپ لوگ ہیں ، وہ کیا کسی کو عسکری تربیت دے پایین گے ۔ رہے جناب الطاف حسین جو ١٩٧١ کی جنگ میں کبھی بلوچ رجمنٹ میں شامل تھے ، آج خود ماشاءاللہ، عمر کے جس حصے میں موجود ہیں، یہ سب ان کے بس کا روگ تو بالکل نہیں ہے۔ ویسے بھی خود ان کو اب ماشاللہ سے کسی ہیلتھ کلب وغیرہ میں داخلے اشد ضرورت ہے۔  

 پِھر ایسا تو نہیں ہے کہ عسکری ونگ ٢٣ اگست ٢٠١٦ کو جھٹ پٹ تشکیل دیا گیا ہو ۔ اگر اس سے پہلے سے موجود تھا ، تو یقینا ٢٣  اگست کے پی آی بی کے  نیکو کاروں کے علم میں بھی ہو گا ۔ وہ تو یقینا اِس کے تمام حقائق سے باخبر ہوں گے تو وہی اِس معمے کو حَل کیوں نہیں کر دیتے ۔ 

پِھر ایک اور خبر جو کئی بار نشر کی جا چکی ہے ، جو اتنی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی کچی جماعت کا بچہ، بھی جس پر یقین نہ کرے۔  وہ الزام کہ ، کراچی میں مختلف مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسلحہ برآمد کیا اور وہ اسلحہ، ایم کیو ایم لندن کا تھا ۔ اب اس اسلحے پر جو کراچی میں برآمد ہوا ، کیا ایم کیو ایم لندن کی مہر سبت ہے ؟ کون اِس بات کا تعین کرتا ہے کہ یہ اسلحہ آیا کہاں سے تھا اور کس نے وہاں چھپایا تھا ؟ اگر حقیقت میں ایسا ہوتا ، تو ایم کو ایم کے  گرفتار شدگان نے مزاحمت  کے لیےاس مدفون اسلحے کو استعمال کیوں نہ کیا ؟

ہمارے بقراطی سیاسی تجزیہ نگار، جو ہر طرح کے تبصروں سے ہمیشہ اسکرین کی  رونق بنے رہتے ہیں ، اکثر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ، جناب الطاف حسین کو پاکستان واپس آ کر تمام مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے اور اپنے چاہنے  والوں کے ساتھ پاکستانی سیاست میں حصہ لینا چاہئے۔ کہنے کو یہ بات بظاہر معقول ہے ، پر انہی ماہرین سے اِس ناچیز کا معصومانہ سوال یہ ہے ، کیا وجہ تھی ، کہ جناب الطاف حسین کو وطن عزیز کو1992 میں خیر باد کہنا پڑا اور کیا اس وجہ کا گذشتہ 25 برسوں میں  تَدارُک ہو پایا ؟ ویسے بھی جناب نے کسی نشست کا کوئی انتخاب خواه وہ یونین کونسل کا ہو یا قومی اسمبلی کا ، آج تک نہیں لڑا اور نہ ہی اب اس کے امکانات ہیں ۔ تو اب وہ کیپ ٹاؤن میں ہوں ، یا شکاگو ، یا ٹورانٹو ، یا دبئی یا پِھر لندن میں ، کیا فرق پڑتا ہے ؟ اگر وہ اپنی تحریک کو اپنی وطن میں غیر موجودگی کے باوجود زندہ رکھے ہوئے ہیں، تو یہ ایک انتہائی غیر معمولی اور قبل ستائش بات ہے۔ 

جب برطانوی حکومت نے ان کے خلاف مبیّنہ غیر قانونی رقوم کی موجودگی کا مقدمہ واپس لے لیا، تو ہمارےبڑے بڑے تجزیہ نگار سخت مایوس ہو گئے ۔ انہیں شدید صدمہ ہوا اور پِھر ایسی بے پر کی وضاحتیں اور پوشیدہ امکانات بیان کئے گئے کہ بندہ اپنا بے ساختہ قہقہہ  روک  نہ سکا ۔ مثلاً ، دیکھئے نا دَراصل، الطاف حسین برطانیہ کا اثاثہ ہیں جوبرطانیہ کبھی بھی ہمارے خلاف استعمال کر سکتا ہے ۔

 گویا آپ نے برطانیہ پر یہ الزام عائد کر دیا ، وہ قانون کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ یا یہ کہ چونکہ برطانیہ  اور بھارت کےگہرے تجارتی مراسم ہیں اِس لیے برطانیہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ۔ گویا کیا برطانیہ، ایک شخص کی خاطر، اپنے تمام قوانین کو با لائے طاق رکھ دے گا ؟ جب الطاف حسین صاحب سے ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں تفتیش کا سلسلہ شروع ہوا تھا، تو یہی بقراطی تجزیہ نگار برطانوی قوانین کی غیر جانبداری اورشفافیت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تھے ۔  یہ چیمپئن،  سب نظرنداز کر دیتے ہیں ، کہ جناب الطاف حسین برطانوی شہریت کے حامل ہیں برطانیہ ، ان  پر تمام قوانین کا اِطْلاق ویسے ہی  کرے گا جو کسی دوسرے برطانوی شہری پر ہوتے ہیں۔ 

 پِھر یہ سازشی مفروضہ انتہائی افسوس ناک ہے ، کہ برطانیہ ایک روز اپنے اِس اثاثے سے پاکستان میں کچھ گڑبڑ  کروا سکتا ہے ۔ یعنی ہمارے عقل کل بنے یہ اینکر اور تجزیہ نگار اپنی خواہشات کو بیچ میں لا کر ایک ایسے ملک پر فرضی الزام عائد کر رہے ہیں ، جس کی بنائی ہوئی کامن ویلتھ کا خود حصہ بھی ہیں ۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا ، ان خیالی تجزیات کو سن کر آدمی کس دیوار سے اپنا سَر ٹکرائے؟

 مذکورہ بالا سبک رفتاری سے گفتگوکرنے والے اینکر صاحب نے کچھ ماہ قبل، یہ اہم خبرپھوڑی کہ، مرحوم ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ ، کسی خطرناک بیماری کا شکار ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک ہے اور کس طرح ان کے بچے ان کی نگہداشت سے محروم ہیں ۔ لندن میں موجود ایم کیوں ایم والے کس طرح اپنے گزرے ہوئے رفیق کے اہل خانہ کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے ، بنا تحقیق کے اتنا ذاتی نوعیت کا الزام داغ دیا گیا۔ 

 برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں ایسے ہنگامی حالات میں، جب کوئی ماں یا باپ بوجہ علالت اپنے نابالغ بچوں کی دیکھ بھال سے قاصر ہوں ،تو  نا بالغ بچوں کی نگہداست کا ذِمہ سوشل سروس کا ادارہ کیا کرتا ہے ۔ بندہ  یقینا غلط بھی ہو سکتا ہے ، مگر وہ دن اور آج کا دن ، ان جناب نے دوبارہ پِھر اِس موضوع پر دوبارہ اپنی کوئی رپورٹ نہیں نشر فرمائی ۔ کم از کم اتنی اخلاقیات کا مظاہرہ تو فرماتے کہ، ایک اوراستفساریہ پرگرام کرتے، یہ معلوم کرنے کے لئے کہ،  ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ کی طبیعت بہتر ہوئی کہ  نہیں اور کیا ان کے نابالغ  بچے اب کس حال  میں ہیں، جن کی فکر ان کوکبھی بہت ستا رہی تھی ۔

 ڈاکٹر عمران فاروق پر یاد آیا، ہمارے جغادری صحافی کئی کئی گھنٹے کی تفتیشی رپورٹیں  اپنے اپنے چینلز پرنشر کر چکے ہیں ، کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا ۔ یعنی ہمارے قانون نافذ کرنے والےاداروں  کے پاس تو ملزمان تھے جو اعتراف جرم بھی  کر چکے تھے۔ ۔ انہی کی اطلاعات کے  مطابق ، ایک غالبا دوران تفتیش اللہ کو پیارے بھی ہو گئے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ، جرم لندن میں سرزد ہوا ۔ تو ملزم کو برطانوی پولیس کے حوالے کیا  جانا چاہئے تھا ، تاکہ ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کیا جا سکے ۔ ملزم سے جرح ہو  اور اِس بات کا تعین ہو سکے کے، آیا ملزم نے اعتراف جرم کسی دباؤ یا تشدد کی بنا پرتو نہیں کیا؟

مگر اس بات کی تاویل یہ دی جاتی ہے، چوں کہ دونوں ممالک کہ درمیاں مجرمان کے تبادلے  کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ سو اس مسئلے پر باہمی مذاکرات درکار ہیں۔ دبے لفظوں میں برطانیہ سے چند بلوچ رہنماؤں کی درخواست کی گئی، جو پاکستان کو مطلوب ہیں، ان کا اگر تبادلہ ہو سکے تو بہتر ہو۔ یہ ناچیز قانون سے نا بلد ہے، مگر اتنی بنیادی حقیقت سے واقف ہے، اگر برطانیہ میں کسی نے سیاسی پناہ لی ہے، تو برطانوی قوانین، اس شحص کو اس کے پیدائشی ملک میں واپس بھیجنے سے گریزاں ہوں گے۔ کم از کم ہمارے بقراطوں کو ایک قاتل اور ایک سیاسی پناہ گزین کے فرق کا علم تو ہونا چاہیے تھا!

(جاری ہے)   

2 Comments