انور عباس انور
پاراچنار پہلی بار لہو میں نہیں نہلایا گیا، اس سے قبل بھی پارا چنار کے عوام کو خون میں لت پت دیکھاگیا ہے،آفرین ہے ہزارہ برادری اور پاراچنار کے غیور عوام کے جس نے متعدد بار دہشت گردی کا شکار کیے جانے کے باوجود ملکی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا، اگر احتجاج بھی کیا ہے تو وہ بھی پرامن رہ کر کیا ہے، اور صد آفرین ہے ہمارے حکمرانوں پر کہ انہوں نے ہزارہ اور پاراچنار کے عوام( جو ملت تشیع ) کے ہیرے موتی لعل جواہر ہیں) کے پر امن احتجاج پر کان نہیں دھرے اور نہ ہی انہیں دہشت گردوں کی دسترس سے باہر کرنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات اٹھائے ہیں،جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
کوئٹہ بھی لہو لہو ہے، دہشت گردوں نے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر نشان لگا دئیے ہیں، آرمی چیف سمیت تمام حکومتی عہدیداران کہتے نہیں تھکتے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، ان کے عزائم خاک میں ملا دئیے گئے ہیں، لیکن ابھی ان دعوؤں کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوتی کہ دہشت گرد اپنا وار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد مژدہ سنایا جاتا ہے کہ سکیورٹی الرٹ کردی گئی ہے،ہائی الرٹ اور پھر ریڈ الرٹ سکیورٹی کے احکامات میڈیا میں اشاعت پذیر ہوتے ہیں۔۔۔لیکن پھر واردات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ سکیورٹی ہائی الرٹ ہوگئی ہے ، لیکن اس کے باوجود دہشت گرد جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں تباہی پھیلا دیتے ہیں۔ اور دہشت گرد سکیورٹی اداروں کی چھاتی پر مونگ دلتے ہوئے دہشت گردی کی واردات کرکے سکیورٹی اداروں کا منہ چڑاتے ہے۔۔۔اور ہم سب ایک دوسرے کا منہ تکتے رہتے ہیں۔
دنیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہم ملکر کوششیں کرتی دکھائی دیتی ہے، روس شام،لبنان اور ایران کے تعاون سے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے روابط بڑھا رہے ہیں، جبکہ امریکا سعودی عرب اور اس کے اتحادی اسلامی عسکری اتحاد کے اشتراک سے داعش اور القاعدہ کے معاون و مددگاروں اور سہولت کاروں کی بیخ کنی کے لیے سرجوڑ کر تدابیر و تجاویز اختیار کر رہے ہیں۔
قطر سے دس مطالبات پورے کرنے کا مطالبہ بھی اسی لیے ہے۔۔۔ لیکن ہر ملک دہشت گردی، دہشت گردوں اور اس کے سہولت کاروں کی تعریف اپنے مقاصد کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے،سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ایران،شام لبنان دہشت گردی کے مراکز دکھائی دیتے ہیں جبکہ ایران ،شام اور ان کے ہمنواؤں کو سعودی عرب اسلامی دہشت گردی کا سرپرست اعلیٰ سمجھتے ہیں،قطر کے مشکلات کے بھنور میں پھنسنے کے امکانات تو موجود ہیں ہی لیکن حالات اس طرف بھی اشارے کر رہے ہیں کہ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور دیگر اتحادی( خلیجی ممالک ) کے لیے بھی آنے والے ایام بہت بڑی آزمائش لے کر آئیں گے۔
خلیج کی اس تقسیم تک بات رہتی تو باقی مسلم امہ اس کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے لیکن خلیج میں خلیج کی اس تقسیم نے تمام مسلم ممالک کو تقسیم کرنے کا سامان کر رکھا ہے، اور یہ صورتحال مسلم دنیا کے لییبہت دردناک ہوگی۔
بات پارا چنار کے لہو میں نہلائے جانے سے شروع ہوئی اور کہاں تک پہنچ گئی، پاراچنار اور کوئٹہ کے دہشت گردی کا شکار مظلوم عوام کو اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دیا۔ پارا چنار کے عوام کے مطالبات کیا ہیں؟ پارا چنار کے عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آرمی چیف قمرجاوید باجوہ وہاں تشریف لائیں اور ان کی دکھوں بھری داستان سماعت فرمائیں اور ان پر ہونے والے مظالم و دہشتگردی کے ذمہ داروں کو کیفرکردارتک پہنچانے کی یقین دہانی کروائیں تو وہ دھرنا ختم کردیں گے۔
اطلاعات کے مطابق پارا چنار اور اس کے اردگرد کے علاقے کی سکیورٹی کی ذمہ داری پاک فوج کے جوانوں کے سپرد ہے، شہر کے ہر آنے اور جانے والے راستوں پر پاک فوج نے چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں،اور شہر میں داخل ہونے اور باہر نکلنے والے افراد اور گاڑیوں کی تفصیلی چیکنگ کی جاتی ہے،اس سب کے باوجود پارا چنار کے ٹل اڈا میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں کا پھٹنا دعوت فکر دیتا ہے،کہ غور کیا جائے کہ دہشت گرد اس قدر تفصیلی چیکنگ کے ہوتے ہوئے اپنے ہدف تک کیسے پہنچ گئے؟
سکیورٹی کی اس ناکامی کو لے کر بیٹھے نہیں رہنا ،اپنی خامیوں کی اصلاح کے ساتھ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے کسی قسم کی کمی نہیں رہنی چاہیے، چوں کہ پارا چنار کے حوالے سے پاک فوج سے مطالبات کیے گئے ہیں لہذا پاک فوج کے چیف عزت مآب جناب قمر جاوید باجوہ کو مطلوم افراد کی امنگوں کا لحاظ رکھنا چاہیے، اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروا کر ملک میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کروانے کی سازش کرنے ، اس سازش میں کام آنے والے، اور اس سازش کی تکمیل میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بے نقاب کیا جائے اور انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ وطن عزیز کو دہشت گردی اور دہشتگردوں سے پاک کرنے کے خوابوں کو تعبیر مل سکے۔
گو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف لندن سے پاکستان پہنچتے ہی احمد پور شرقیہ گئے اور وہاں بریفنگ لی اور اپنے برادر اصغر وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو شاباش دیکر سمجھے کہ وہ اپنے منصب کے فرائض کی ادائیگی سے فارغ ہو چکے، شائد انہیں بتایا نہیں گیا کہ کوئٹہ اور پارا چنار بھی پاکستان کے نقشے پر واقع ہیں، اگر انہیں ایسا بتایا جاتا تو یقیننا وزیر اعظم کوئٹہ اور پارا چنار ضرور جاتے اور وہاں کے مظلوم عوام کے دکھ درد میں شریک ہوتے ، اور وہاں کے شہدائے اور ان کے لواحقین کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے امداد کا اعلان کرتے ،پارا چنار اور کوئٹہ کے سانحات کی تحقیقات کے علاوہ بہاولپور کے علاقے احمد پور شرقیہ میں ہونے والی ہلاکتوں میں غفلت کے مرتکب افراد کو بھی سبق سکھایائے، کیونکہ پاکستان کے غمزدہ عوام کی نظریں بھی اس جانب لگی ہوئی ہیں۔
♦
One Comment