بیرسٹر حمید باشانی
بھارتی وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی امریکہ یاترا کو پاکستان میں بہت سنجیدگی سے لیا گیا۔پاکستانی وزیر اعظم جناب نواز شریف کی صدارت میں وزارت خارجہ میں ایک ہنگامی اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں اس دورے کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں خطے میں پاکستانی مفادات اور ملکی سلامتی کے تحفظ کاعزم دہرایاگیا۔وزیر اعظم نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا اور یہ اعلان کیا کہ کشمیری عوام کی اخلاقی حمایت جاری رہے گی۔
حکومتی حلقوں کے علاوہ میڈیا نے بھی مودی ٹرمپ ملاقات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔اس ملاقات کو ہمارے میڈیا نے مودی ٹرمپ گٹھ جوڑ قرار دیا ہے۔ہمارے کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ گٹھ جوڑ صرف پاکستان کے خلاف ہے۔ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو پاکستان کے خلاف ایک باقاعدہ فرد جرم ہے۔ اس سارے قصے میں یوں تو ہر بات اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ لیکن سب سے اہم بات حزب المجاہدین کے کمانڈر سید یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو خصوصی طور پر نامزد کردہ عالمی دہشت گرد قرار دینا ہے۔
کچھ لوگ اس پر ناراض ہیں۔کچھ غصے کا ااظہا کر رہے ہیں۔اور کچھ حیران ہیں۔غصہ اور ناراضگی تو سمجھ میں آتی ہے،مگر حیران ہونے والوں پر مجھے حیرت ہے۔ان حیران ہونے والوں میں وزارت خارجہ میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسران سے لیکر بڑے حکومتی اہل کار بھی شامل ہیں۔اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی پیشگی اطلاعات نہیں تھیں یا وہ امریکہ سے ایسے کسی قدم کی توقع نہیں رکھتے تھے۔
پاکستان بھارت اور امریکہ تعلقات میں دلچسپی رکھنے والے لوگ یہ جانتے تھے کہ بھارت ایک عرصے سے اس سلسلے میں امریکہ میں لابی میں مصروف تھا۔بھارت نے سرکاری سطح پر دہشت گردی میں مطلوب جن افراد کی فہرست دی تھی اس میں سید صلاح الدین کا نام شامل تھا۔اور پاکستان کے سفارتی حلقوں کو اس بات کا علم تھا کہ بھارت اس فہرست میں شامل افراد کو دہشت گرد قرار دلوانے یا ان لوگوں کو بھارت کے حوالے کرنے کے لیے لابی کر رہا ہے۔
چنانچہ یہاں حیرت کا اظہار عجیب سی بات ہے۔غصے اور ناراضگی کا اظہار وہ لوگ کر رہے ہیں جو سید صلاح الدین کے ہمدرد ہیں۔ان کے خیال میں حزب المجاہدین ایک دیسی کشمیری تنظیم ہے۔یہ بھارت کے خلاف مذہبی جہاد نہیں بلکہ مزاحمت کر رہی ہے۔اس کاعالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔لہذا اس کے لیڈر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔مگر جو لوگ کشمیر کی مقامی سیاست ،جہاد اور دہشت گردی کا علم رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ حزب المجاہدین ایک بنیاد پرست جہادی تنظیم ہے۔
کشمیر سے باہر اس تنظیم کا تعلق حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے لوگوں سے رہا ہے۔سید صلاح الدین کی جہاد کونسل کاپاکستان کی تمام بنیاد پرست اور جہادی تنظیموں کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ حافظ سعید اور مولانا اظہر پر پاکستان کی پالیسی بانجھ پن اور تضادات کا شکار رہی ہے۔انکار کی یہ پالیسی ایک مدت تک چلتی رہی۔اور حقائق کو اس وقت تسلیم کیا گیا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔انکار کی یہی پالیسی صلاح الدین کے معاملے میں بھی اپنائی گئی تاوقتیکہ امریکہ کی طرف سے نوٹیفیکشن جار ی ہوتا۔اور اس نوٹیفیکشن کے بعد بھی آزاد کشمیر کے صدر سمیت کئی لوگوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور مذمتی بیان تک داغ دیا۔
سید صلاح الدین کو امریکہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد قرار دینا درست ہے یا غلط ؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کے ساتھ کئی مذہبی،قانونی، سیاسی، نظریاتی، اور سفارتی نقاظ جڑے ہوئے ہیں۔اس بحث کے حق اور مخالفت میں کئی دلائل دئیے جا سکتے ہیں۔لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ انہیں دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔ جب انہیں دہشت گرد قراردیا جا چکا تو ارباب اختیار اور خود سید صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اس باب میں محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اپناتے۔
اس کے برعکس سید صلاح الدین ڈرامائی انداز میں نعروں کی گونج میں نمو دار ہوئے اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ساتھ یوں کھڑے ہو کر تصاویر بنوائیں جیسے انہوں نے امن کاعالمی اعزاز حاصل کر لیا ہو۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اس کے بعد ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں حسب روایت اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار امریکہ بھارت اور اسرائیل کو قررار دیتے ہوئے تینوں کو بیک وقت سبق سیکھانے کا عزم ظاہر کیا۔اس کے بعد آزاد کشمیر میں مختلف مقامات پر جلسوں کا اعلان کیا۔
ان جلسوں میں آزاد کشمیر کے لوگوں کو بتایا جائے گا کہ ان کی جنگ اب کچھ اور طویل ہو گئی ہے۔پہلے ہماری بندوق کا رخ صرف بھارت کی طرف تھا اب ہم نے اس میں امریکہ اور اسرائیل بھی شامل کر لیے ہیں۔ اب ہمارے جذبہ جہاد اور قوت ایمانی میں کئی ہزار گنا اضافے کی ضرورت ہے۔اب ہمارے صبرکے پیمانے بڑے اور انتظار کی گھڑیاں صدیوں پر محیط ہوں گی۔اب ہماری لڑائی کشمیر کے پہاڑوں سے اتر کر عالمی ہو گئی ہے۔
صلاح الدین کی قیادت میں ہونے والے یہ سارے جلسے جلوس باقاعدہ ڈاکومنٹ ہوں گے۔سفارت کاری کے عالمی مراکز میں یہ تصاویر اور وڈیو دکھائے جائیں گے،اور جب کوئی کشمیری کسی عالمی فورم پرامن یا آزادی کا سوال اٹھائے گا تو یہ تصاویر اس کے سامنے لہراتے ہوئے یہ بتایا جائے گا کہ آپ لوگوں نے تو دہشت گردوں کو پناہ گا ہیں مہیا کی ہوئی ہیں۔وہ وہاں کھلے عام جلسے کرتے اور جلوس نکالتے ہیں۔
جواب میں ہم انکار کی پالیسی پر گامزن ہوں گے اس وقت تک جب تک ہمارے سارے راستے بند نہیں ہو جاتے۔جب سب راستے بند ہو جائیں گے تو ہم سید یوسف شاہ کو بتائیں گے کہ ہم مجبور ہیں۔ یہ اب صلاح الدین کا دور نہیں ہے ۔ اور ہم سید صاحب کوحافظ سعید اور مسعود اظہر کی طرح حفاظتی تحویل میں لیکر کسی محفوظ جگہ پر نظر بند کر دیں گے۔
♦