دنیا کی صف اول کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک سابق سربراہ جنرل پاشا نےگزشتہ چند روز کے دوران سامنے آنے والی ایک بات اور ایک اقدام ایسا کیاکہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب لکھنا اور پوچھنا پڑا۔
موصوف نے ایک بار کہا تھاکہ پاکستانی صحافی عورت اور ایک بوتل شراب پر اپنا ایمان بیچ ڈالتے ہیں ۔
ان کا مشاہدہ اور تجزیہ درخور اعتناء ہےفی الوقت اسے چیلنج کرنے کے جھنجھٹ میں بھی نہیں پڑتےآخر ان کا ایک نہیں کئی پاکستانی صحافیوں سے واسطہ پڑا ہو گا جب ھی تو اتنے اعتماد سے اتنا بڑا الزام سر عام تھوپ دیا۔
عہدے اور مرتبے کے اعتبار سے یقیناً ان کاواسطہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے بڑے صحافیوں سے پڑا ہو گا میں ان ” بڑوں ” کے وکیل بننے کا بار اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ اپنے پاشا صاحب کو کسی ضروری کام سے لاہور کے ایک سیشن جج کی عدالت جانا پڑا۔
ان چھوٹی عدالتوں میں گھومتے پھرتےمیرے ایسے معمولی رپورٹروں میں سے انہیں عورت اور شراب کی خاطر اپنا ایمان بیچتا کوئی صحافی نہ ملا
تو موصوف نے خود ہی اس عدالت سے براہ راست رپورٹنگ شروع کر دی ۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے مطابق پاشا پاکستان میں اس وقت تعینات امریکی سفیر کیمرون منٹر کو عدالتی کارروائی سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھے ہوئے تھے ۔
گستاخی معاف پاشا صاحب!۔
آپ نے تو کچھ نہیں بیچا ؟ اور اگر دنیا کی صف اول کی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ ہوتے ہوئے نادانستگی میں ایسا کچھ کر بیٹھے تو کیا بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ نے یہ سودا عورت کےعوض کیا یا ایک بوتل شراب پر ؟
کیا میں کچھ زیادہ پوچھ بیٹھا ؟
پیشگی معذرت قبول فرمائیں
وہ دراصل واقعاتی رپورٹنگ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے سیشن جج کی عدالت میں صحافی کا کردار تو آپ نے بھی ادا کیا اس لئے پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں
اور وہ بیچنے والی بات بھی آپ حضور نے کی تھی آپ کی بات غلط کیسے ہو سکتی ہے۔
بس ذراآپ کے صحافیوں سے متعلق بات اور آپ کی عدالتی رپورٹنگ کے درمیان کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔
فیاض ولانہ