وزیراعظم نریندر مودی تاریخی دورہ پر آج اسرائیل پہنچے جہاں وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بین غورین ایرپورٹ پر ان کا انتہائی پرتپاک استقبال کیا۔ خصوصی طیارے سے اُترنے کے بعد مودی، نیتن یاہو سے بغلگیر ہوگئے ۔ نیتن یاہو نے دونوں ہاتھ جوڑ کر روایتی انداز میں نمستے کیا اور ہندی زبان میں مودی سے کہاکہ ’’آپ کا سواگت ہے میرے دوست‘‘۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والے وہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم ہیں۔ نریندر مودی اس دورہ کے موقع پر اپنے ہم منصب بنجامن نیتن یاہو سے اقتصادی تعلقات کے فروغ اور دہشت گردی جیسے مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے مختلف امکانات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ مودی 6 جولائی تک اسرائیل میں رہیں گے۔
انسانی تاریخ کے بدترین المیوں میں شامل نازیوں کے مظالم کے شکار یہودی مقتولین کے اعزاز میں تعمیر شدہ یاد واثم میوزیم گئے اور ان بہادر ہندوستانی سپاہیوں کو بھی خراج عقیدت ادا کیا جنھوں نے 1918 ء میں حیفہ کی آزادی کے لئے اپنی جان قربان کی تھی۔
گوکہ بھارت نے اسرائیل کو سن 1950میں ہی تسلیم کر لیا تھا اور سن 1953 میں اسے ممبئی میں قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دے دی تھی تاہم باضابطہ سفارتی تعلقات سن 1992میں قائم ہوئے تھے۔ اُس وقت کانگریس کی قیادت والی نرسمہاراو کی حکومت تھی۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تیزی سے بہتری آئی ہے۔ سن 2013 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے دوران جسونت سنگھ سن 2012 میں، کانگریسی حکومت کے دوران ایس ایم کرشنا اورگزشتہ سال سشما سوراج نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ کیا تھا جب کہ سن 2015 میں صدر پرنب مکھر جی اسرائیل گئے تھے۔ ان دوروں میں بھارتی رہنما تل ابیب کے ساتھ ساتھ فلسطین بھی جاتے رہے ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہوگا جب وزیر اعظم مودی رملہ نہیں جا ئیں گے۔
اٹل بہاری واجپئی کی حکومت کے دوران سنہ 1999 میں کارگل کی لڑائی کے وقت دونوں ممالک کے تعلقات کافی آگے بڑھے تھے۔ اس وقت اسرائیل نے اسلحہ اور بارود بھیجنے میں انڈيا کی بہت مدد کی تھی۔انڈیا نے چار پانچ برس قبل اسرائیل کی فوجی سیٹلائٹ کو بھی لانچ کرنے میں مدد کی تھی۔
اسرائیل گذشتہ 15 سے 20 سال میں انڈیا کو دفاعی ساز و سامان دینے کے معاملے میں چوتھا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ، روس اور فرانس کے بعد اسرائیل کا نمبر آتا ہے۔ اسرائیل نے انڈیا کو کئی طرح کے میزائل سسٹم، ریڈار اور ہتھیار مہیا کیے ہیں۔اسرائیل بذات خود بہت بڑے پلیٹ فارم اور جہاز نہیں بناتا لیکن وہ میزائل اور ریڈار کا نظام بناتا ہے۔
گذشتہ ڈیڑھ عشرے میں انڈیا کا اسرائیل پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران جو دفاعی معاہدے ہوں گے، ان کے حوالے سے طویل عرصے سے بات چیت چل رہی ہے۔
انڈيا دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی ساز و سامان برآمد کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور وہ آئندہ کئی سالوں تک اسرائیل کا اہم صارف بنا رہے گا۔انڈیا اور اسرائیل کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے بھی کافی تعاون ہوتا ہے۔
بھارت اب اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ وہ سالانہ اوسطاً ایک بلین ڈالر کے ہتھیار خریدتا ہے۔ بھارت اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور فوج کو جدید بنانے کے لیے 100بلین ڈالر کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔گزشتہ ماہ اسرائیل کی سرکاری ایرو اسپیس انڈسٹری نے کہا تھا کہ بھارت اس سے تقریباً دو بلین ڈالر کے ہتھیار خریدنا چاہتا ہے۔ اس سودے کے تحت اسرائیل بھارت کو درمیانے فاصلے تک زمین سے فضا میں مار کرنے والے جدید ترین میزائل، میزائل لانچر اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم مودی کے اس دورے سے فوجی تعاون اور تجارتی تعلقات کے ایک نئے عہد کا آغاز ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اسے فلسطین کے حوالے سے بھی بھارت کے موقف میں بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن جنتا دل یونائٹیڈ کے قومی ترجمان اور ممبر پارلیمان کے سی تیاگی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت ابتدا سے ہی فلسطینی کاز کا زبردست حامی رہا ہے۔ ایسے میں موجودہ عالمی سیاسی حالات کے باوجود یہ ضروری ہے کہ بھارت فلسطین اور اسرائیل دونوں ہی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ بدلتے دور میں اسرائیل سے بھارت کی دوستی اچھی پہل ضرور ہے، ایکسپورٹ امپورٹ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن یہ فلسطین کے تئیں اپنے عہد کو قربان کر کے نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دورے کے بعد فلسطین کے حوالے سے بھارت کے تعلقات کی سمت کیا ہو گی، لوگوں کی نگاہیں اس پر بھی مرکوز رہیں گی۔
DW/BBC/News Desk