ڈاکٹر برکت کاکڑ
پی ٹی وی کے عید سعید والے مشاعرے کی گونج کو بہ کو پھیلی ، سوشل میڈیا نے حسب معمول نسل پرستی کے اس شاہکار واقعے کو اچھالا، اور پھر گلی و کوچوں میں اس پر بات ہونے لگی۔ ایک گمنام شاعرجواد حسین جواد جو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے کا خواہاں تھا، اور اپنے کئی پیش رو شاعروں، ناول نویسوں اور فلمی ہدایت کاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس سمت نکل آیاتھا، نے ایک ایسی غزل سامعین محفل کے گوش گزار کی جس نے آخر کار انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔
بالکل گاؤں کے مُلا کے اس بے نام لڑکی کی طرح نام کمایا جنہوں نے مسجد میں گندگی کرکے اپنے وجود کا پتہ دیا۔ وہ فی الحال تو پی ٹی وی سے نکالے گئے لیکن ان کی شاعری پر واہ واہ کرنے والے ہزاروں کرم فرماؤں کے اصلی ہیرو بھی بن گئے۔ ہو نہ ہو سرما میں کراچی اور لاہور کے لٹریچر فیسٹول میں ایک ممتاز ادیب اور شاعر کے طور پر کی نوٹ سپیکر کے طور پر بلائے جائیں گے، اور اردو ادب میں انکا طوطی بولنا شروع کردےگا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اپنے تیرکش میں اشعار کے نام پر جتنے زہر میں بجھائے ہوئے تیر لے کر آیا تھا سارے ہوا میں چھوڑے۔ قومی ٹیلی ویژن کے اس مشاعرے میں بیٹھے ہوئے تمام خواتین و حضرات نے جتنی داد نام نہاد نسل پرست مزاح نگار کو دی وہ اسے شاید کسی مشاعرے میں ملی ہو، ۔ شاعر اگر قصیدہ بردہ شریف بھی پڑھتا تو اتنی داد نہ ملتی۔ صدر مجلس (جو ویڈیو میں دکھائی نہیں دیتے ) کی حالت ہرشعر کے دوسرے مصرعے کے خاتمے سے پہلے ہی غیر ہوجاتی ہے ، اُچل کر واہ واہ کی صدا بُلند کرتے ہیں۔
اس مشاعرے نے بیک وقت کئی تضادات کو زبان دی ہے۔ پی ٹی وی کی گرتی ہوئی ساکھ اور معیار کی علت تو سمجھ توآجاتی ہے، کہ ریلوے، سٹیل مل، پی آئی اے، اور سرکاری ہسپتال، تعلیمی ادارے بھی سویلین قومی ادارے ہیں، لیکن اس گرتے اور سنبھلتے ادارے میں مشاعرے کیلئے بلائے گئے شعرا اور سامعین کے گرتے ہوئے ادبی ذوق،حس مزاح اور اخلاقی کنگلے پن کا کیا کہے۔
زبان و بیان کے رموز سے ناآشنا ،الحمداللہ کہہ کر اور کاندھے اُچکا کر خود کو پشتون نہ کہلانےوالے سامعین اور منتظمین میں سے کسی نے اس نا اہل کو مزاح نگاری اور گالم گلوچ کے درمیان پائے جانے والے واضح فرق کا نہیں بتایا۔ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ چونکہ شاعر سماج کے اجتماعی سوچ ، احساسات ، جذبات اور ذہنی رویوں کا عکاس ہوتا ہے، انکو تھپکی (داد) بھی تب ملتی ہے جب انکے فکر و فن کی فریکونسی سننے والوں کے افکار، طرز فکر اور تہذیبی رویوں کے پیچ پر درست اُترتی ہے۔
اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اتنے سارے سننے والوں میں سے کتنے لوگوں نے شاعر کے کلام کو نسل پرستی کے زمرے میں ڈالا؟۔ اس کی مثال ایسی ہےجیسے مشال خان شہید کو مارنے اور تھکنے والوں کے بیچ کوئی فرق کیا جائے۔ آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا لسانی گروہ یا دوسری بڑی قوم کے بارے میں جب کراہت آمیز، مجرمانہ، غیر مہذب اور ناشائستہ جیسے القابات بیان کئے جائیں تو اس پر تالیوں کے بجائے شاعر کو گندے انڈے اور جوتے پڑنے چاہئے تھے۔ چونکہ پشتونوں کی ایسی علامت نگاری قومی دھارے کا وتیرہ رہا ہے، اسلئے اس پر اس وقت کسی جانب سے کوئی احتجاج ریکارڈ پر نہ آیا۔
جب تک اس پر احتجاج نہ ہوا، اور سوشل میڈیا نے اسے ایک مسئلے کے طور پر نہ اٹھایا، پی ٹی وی کے جنرل منیجر کو بھی اس پر نسل پرستی کا گمان تک نہ ہوا۔ کیوں ہوتا، کہ پی ٹی وی نے اپنے ڈراموں، کمرشلز، خاکوں اور نغموں کے ذریعے ایسی ہی کردارسازی اور علامت نگاری کی ہے۔ مشاعرہ اور لاکھوں پشتونوں کی عزت نفس لوٹنے والا یہ شاعر کہاں سے وارد ہوا، اسکے کلام کو مشاعرہ میں پیش ہونے سے قبل دیکھا کیوں نہ گیا، نسل پرستی کے آسیب میں مبتلا ان کی گذشتہ تحریروں اور چال چلن کی جانچ پڑتا ل کیوں نہ کی گئی ، یہ سارے وہ سوالات ہیں جو پی ٹی وی سے پوچھے جانے چاہئے، لیکن وہ تو قومی سالمیت کا ٹھیکہ اٹھائے ہوئے ہیں، ان سے باز پرس یا بحث کون کرے۔
سوشل میڈیا کے توسط سے جب نسل پرستی پر مبنی اس مشاعرے کی خبر اور ویڈیا منظر عام پر آئی، تو پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد، کراچی، بنوں، لورالائی، سوات، چارسدہ، غرض ہر کہیں سے اسکی خوب مذمت دیکھنے کو ملی۔اس مشاعرے کے ردعمل میں جو پشتون عرب امارات، امریکہ، برطانیہ، کینڈا ، وغیرہ میں رہتے ہیں انہوں نے ریاستی فریم ورک میں پشتونوں کی بے بضاعتی اور کسم پرسی کو اس سے جوڑا اور اسے ریاست کے مہا بیانئے سے جوڑا جو تاحال پشتونوں کو محض لشکر گر، غیرت مند اور لڑنے والی قوم کی صفت سے پہچانتی ہے اور اسے ان کے بود و باش، کلچر اور ادب میں کوئی شائستگی دکھائی نہیں دیتی۔
دلچسپ امر ہمیں ڈیورنڈ لائین کے اس جانب افغانوں سے بھی ردعمل ملا، جنہوں نے بارہا یہی تاثر دیا کہ پاکستان میں رہنے والے پشتون اپنے وقار کی اصل جھلک اس مشاعرے میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں، اور تو اور یو فون کے کمرشلز اور نصابی کتب میں انکی جو شبیہ دکھائی گئی ہے وہی دراصل ریاست کے مالکان کے انکے بارے میں اصل تصور ہے۔
پاکستان میں جہاں ہزاروں پولیس والے دسیوں وی آئی پیز کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں، چھاؤنیاں سنگ و آہن کے بنائے گئے دیواروں میں محفوظ ہیں، سوشل میڈیا اور کمرشل میڈیا میں عسکری اداروں کی عزت و تکریم کا پاس رکھنے اور منکرات سے بچنے کیلئے قوانین پاس ہوتے ہیں اور اس پر عمل درآمد ہوتا ہے، لیکن کروڑوں انسانوں کی عزت نفس اور عظمت کو تار تار کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی عمل میں نہیں آتی۔ قانونی اور عدالتی ادارے اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور نہ سول سوسائٹی کے گروہ جو صنفی اور سماجی حقوق کیلئے تو صف آرا ہوتے ہیں لیکن قوموں کی تاریخ، کلچر، زبان، اور شناخت سے متعلق ریاستی یا سماجی اداروں کی اس تکلیف دہ نسلی امتیاز کے بارے میں چپ سادھ لیتے ہیں۔
پشتونوں کو تضحیک آمیز ا بنا کر پیش کرنا اگرچہ سامراجی تاریخ کی ایک کڑی ہے، لیکن تاریخ کے اس مقام پر آکر اب یہ پشتون قومی سوال سے جُز بن گیا ہے۔ ریاست کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں نے اپنے لسانی شناخت سے دستبردار ہونے اور واحد و یکتا ریاستی و مذہبی شناخت کو سینے سے لگانے کیلئے جو لائحہ عمل طے کیا ہے اس نے اُلٹا اثر دکھلانا شروع کیا ہے۔اگرچہ انکے مکمل انسانی وجود کو گل خان کے مضحکہ خیز علامت تک محدود کرنے کا عمل جاری رہا ہے، لیکن مخصوص استبدادی حالات سے گل خانوں کی آنکھیں بھی چندیا گئی ہیں، وہ بھی فریب خوردہ شاہینوں کی طرح اپنے مکمل اور آزاد انسانی وجود کا سوال اُٹھانے لگیں گے۔
انھیں یاد آنا شروع ہو گیا ہے کہ انکی زبان ، تاریخ اور ثقافتی سرمائے کے ساتھ ریاست وہی سلوک کرتی رہی ہے جو کباڑ خریدنے والا کسی لاوارث خاندان کے پیتل اور کانسی کے نادر برتنوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اگر کسی نے گھر کے برتن بیچے ہوں تو اس امر کا اثبات کرے گا کہ کباڑ برتن تولنے سے پہلے اپنے بھاری بھرکم گرُز (ہتھوڑے) سے نادر برتنوں کو بری طرح کوٹتا ہے ، اسکا حلیہ بگاڑتا ہے ، اسے توڑنے مروڑنے کے بعد تولتا ہے، اور پھر اسکی قیمت لگاتا ہے اور اونے پونے ہتھیا لیتا ہے۔ کباڑ سے لیکر گارڈر اور سریا بنانے والے سرمایہ داروں کے استحصالی طور طریقے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔
نسل پرستی کے اس پے در پے واقعات سے ایک امر یہ واضح ہواہے کہ ریاستی ادارے اس معاملے کوکسی بھی کھاتے میں نہیں ڈالتے اور نہ ہی اسکو اہمیت دیتے ہیں۔ جس طرح چور اچکے دکان لوٹ کر، اور گرفتار ہو کر اگلے صبح پھر دکاندار وں کے سامنے وارد ہوجاتے ہیں، اور نتیجے کے طور پر دکاندار قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں، چور یا بھتہ خور کو اذیت ناک موت دیتے ہیں، اگر اس جانب توجہ مبذول نہ ہوئی تو خدا نخواستہ وہ دن دور نہیں کہ مشتعل افراد انکو بھی چوروں اور بھتہ خوروں کی انجام تک پہنچا ئیں گے۔مذہبی اور مسلکی منافرت کے ساتھ ساتھ نسلی منافرت کیا گل کھلا سکتی ہے اسکا اندازہ ہم کراچی کی تباہی کےتیس سالہ تاریخ سے باآسانی لگا سکتے ہیں۔
♥