علی احمد جان
کیا تماشا ہو دس جولائی کو ہم بیٹھے ہوں اپنے ٹیلی ویژن کھول کر اور نگاہیں جمی ہوں اس کی سکرین پر اور تلاش کر رہے ہوں اس چینل کو جس کے رپورٹر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خبریں دے رہے ہوں۔ کیمرہ لگا ایک ڈرون شاہراہ جمہوریت اور پارلیمان کی عمارت کا ایک فضائی نظارہ کرواکر سپریم کورٹ کی پر شکوہ بلڈنگ کی دید سے ہماری آنکھیں منور کردے اور اندر جانے والے لوگوں کا دیدار بھی۔
یہاں سب سے پہلے پہنچے ہوں راولپنڈی کے نابغہ روزگار اور غم جمہوریت سے نڈھال شیخ صاحب اور اعلان فرمارہے ہوں کہ آج جنازہ کتنے بجے ہوگا جس کی پیش گوئی اس نے کئی ماہ و سال پہلے فرمائی تھی ۔ پھر آئے لہکتے لچکتے ہمارے سب کے مرکز نگاہ ،خانوں کے خان ، جانوں کے جان جمہوریت کے اکھاڑے کے واحد پہلوان اور ہر ٹیم کے کپتان اپنی ٹیم کے غازی گفتار جناب فواد، شریں نوا محترمہ مزاری، کراچی والے زیدی اور لاہور ، ملتان اور پشاور کے نئے پرانے پہلوانوں کے ہمراہ۔
ان کے خود کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ان کی چہرے کی مسکراہٹ سے ہی ہمیں معلوم ہوگا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اپنی ٹوپی سر پر ترچھی سجائے تفاخر سے قدم اٹھاتے سراج بھی باسٹھ اور تریسٹھ کی تلوار چلنے کی امید دل میں لئے بات قانون اور انصاف کی کرتے ہماری نظروں کے سامنے سے گزر کی مرمریں عمارت میں چلے جائینگے۔ نظر تو یہاں دانیال، طلال اور ان کے ساتھ مریم ثانی بھی آ جائیں گے مگر ہمیں ان کی قسمت کے فیصلے کی خبر پہلے سے ہے اس لئے ان کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہم اپنے کچن سے کچھ کھانے کے لئے لے آنے کے لئے اٹھ جائیں گے کیونکہ ہمیں دن بھر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ کر پچھلے کئی مہینوں سے جاری قانون اور انصاف کی اننگز کا فائنل دیکھنا ہے۔
گزشتہ کئی مہینوں سے سپریم کورٹ کی عمارت کے سبزہ زار پر تقریری مقابلے، مباحثے اور مشاعرے جاری ہیں۔ کئی بار یہاں باہر سے لاکر رکھے واحد ڈائس پر قبضے کی جنگ بھی چھڑ چکی ہے جس میں کئی بار اس مجبور و بے بس ڈائس نے فریقین سے ان کے پاؤں پڑ کر معافی بھی مانگی لیکن اس کی جان نے امان نہ پائی جو آج بھی تختہ مشق ستم ہوگا۔
آج بھی صبح ہی سے اس ڈائس پر قبضہ جاری ہوگا اور جولائی کی دھوپ اور فضا میں حبس کی کسی کو پرواہ نہ ہوگی کیونکہ ڈائس کے قابضین کے آپس کی جنگ بھی اتنی شدید ہے کہ کوئی ایک انچ بھی اس سے ہٹ جائے تو دوسرا اس کی جگہ براجمان ہوجاتا ہے۔ دس جولائی کی دوپہر کی گرمی میں کون کتنی دیر تک فطری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر قابض رہ پاتا ہے یہ بھی ایک دیکھنے والا مقابلہ ہوگا۔مقابلہ تو ہم تک خبریں پہنچانے والے ٹیلی ویژن کے رپورٹروں کا بھی آپس میں خوب ہوگا کہ مرمرین عمارت کے اندر سے کس کے موبائل پر کونسا ٹکر پہلے آجاتا ہے کہ جس کو چلا کر وہ سے پہلے کا نعرہ لگا سکے۔ مقابلہ تو ٹیلی ویژن سکرین کے آگے بیٹھے ہمارے بیچ بھی ہوگا کہ کس کی کونسی پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی ہے ا ور کس کی کونسی غلط۔ مختصر الکلام یہ کہ مقابلہ سخت ہے اور وقت کم ، کل کا ایک ہی دن۔
بلانے اور چلے جانے کا تماشاآئی ایٹ کی جوڈیشل اکیڈمی میں خوب رہا ۔ یہاں سے خبریں، خبروں کی خبریں اور اندر کی خبروں نے ہماری تفریح و طبع کا سامان کئے رکھا۔ کوئی دن ایسا نہ گزرا کہ جس دن کچھ نیا نہ تھا۔ کبھی ایس ایم ایس اور کبھی ایم ایم ایس ، کبھی پپو آئے ، کبھی ببلو ، کبھی بابا آئے تو کبھی بی بی ۔ اگر کسی دن کچھ نہ تھا تو اس دن قطری کےآنے اور نہ آنے کے قطرے پلائے گئے۔
اسی دوران جو جس پر گزری کی سرگزشت کا تماشا بھی خوب ہوا۔ رحمان ملک کی کہانی تو ہم نہ سن پائے مگر ان کی چال ڈھال نے بتادیا کہ اس نے نہ صرف سینے میں برسوں سے چھپائے سارے راز اگل دئے بلکہ اپنے سینے سے چمٹائی فائل کو بھی اس کے منزل مقصود تک پہنچا دینے کے بعد اب وہ سکون سے کہیں گیان پر جانے والے ہیں۔ سرگزشت تو ان افسران کی بھی بڑی دلچسپ رہی ہوگی جو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران معمول کی بھول چوک سمجھ کر فرو گزاشت کی گئی ناقابل اعتنا باتوں کے استفسار پر افشار خون کی بے قاعدگی کا شکار ہوئے۔ یہاں گئے تو سب ہی مگر آئی صرف ایک تصویر جس کی کہانی کو ابھی آنا باقی ہے۔ شائد اس کہانی کو کسی خوش کلام اور اداب سخن سے مانوس قصہ گو کا انتظار ہے جو ابھی کسی نامعلوم مقام پر مشق سخنوری میں مصروف ہے ۔
کناروں سے کھیلنے والوں کے ڈوب جانے کاتماشا دیکھنے کے متمنی منتظر تماشا ہیں کہ ان کی کشتی ڈوب جاتی ہے جس کے ناخدا نہ دیکھ پائے کہ ان کی ناؤ میں پانی کب کس سوراخ سے داخل ہوا۔ خلیج عرب کے بحر بیکراں میں جہاز رانی کے مشاق ملاح سمجھ نہ پائے کہ ان کے بادبان پناما کی تنگ ندی میں الٹی چلنے والی ہواؤں کے گھن چکر میں کب پھنس گئے۔ زندگی بھر اپنی خاکساری کی بہ اسم خدا قسمیں کھانے والوں کی شان سلطانی کا بھانڈا ولایت کے چوراہے پر کیسے پھوٹا۔ یہ کیسا قہر ہے کہ مانند قیامت کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا وگرنہ کچھ تو سدھارتے کچھ تو سنوارتے، کچھ نہیں تو اپنے پرانے بیع کھاتے ہی سیدھے کرتے کہ یوں رسوا نہ ہوتے۔ اب رسوائی ہوئی ہے تو تماشا بھی ہوگا۔
اب بھی وقت کی چند ساعتوں کے لوٹ آنے کے منتظر تماشا بھی کبھی حرم کی دیواروں سے لپٹ کر دست بہ دعا ہیں تو کبھی خدام حرم کے قدموں پر گر کر سائل دوا ہیں۔ کوئی چارہ گری ہو ، کوئی کرامات ہو کہ کوئی کشف بس وقت کی چند ساعتیں لوٹ آئیں ۔ وہ بھی سوچتے ہیں اگر وقت لوٹ آیا اور وہ ساعتیں دوبارہ ملیں تو کیا تماشا ہو۔ کیا تماشا ہو جب مرمرین عمارت کے مکین کہہ دیں کہ ثبوت ناکافی ہیں اور شواہد نا قابل اعتبار اس لئے پھر سے کھوجی دوڑا کر نشان پا ڈھونڈے جائیں کہ زر کا سفر سر زمین عرب سے والایت تک کیسے ممکن ہوا۔
اگر یہ تماشا ہوا تو پہلے ہی کھائی مٹھائی بھی حلال ہوگی اور ڈالے بھنگڑے بھی جائز۔ ان کو بھی امید ہے کہ جس کے خزانے سے ان بھٹی سے بادشاہت ،عرب سے ارب تک سب کچھ مل چکا ہے تو وقت کی چند ساعتوں کا لوٹ آنا بھی ممکن ہے۔ اگر ایسا ہوا تو رحمان ملک کی فائل، کوتوال کی تکرار، وکیلوں کی جرح اور منصفوں کی چبھتی نگاہیں سب کا مداوا ممکن ہوگا۔
کھوجیوں کو قطری کے قطرے بھی پلائے جائینگے ، اور بنکوں کے کھاتے بھی دکھائے جائیں گے، ان راستوں میں زر کا نشان پا بھی دکھایا جائیگا جو نظر نہ آیا تو چمک کے چشمے لگو دیئے جائیں گے تاکہ وہ بھی نظر آ سکے جو پوشید ہ و پنہاں ہے۔ بقول ساغر صدیقی
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں توکیا تماشا ہو
♦