ملک سانول رضا
یار! آج نادرا کے دفتر میں بڑی بے عزتی ہوئی۔ شدید دھوپ میں لائن لگے۔۔
گھنٹوں بعد باری آئی۔۔۔ اندھیرا ساتھ لائی کل آنا لائٹ نہیں اگلے دن۔۔۔۔۔ وہی انتظار۔۔۔
بھائی ساتھ لاؤ عرض کیا وہ تو کراچی مزدور ہے پھر بھاگ جاؤ التجائیں, منتیں ۔۔۔ مسترد مُڑتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں کی بے ربط جنبش دیکھی تو قریب بلایا گالیاں بھٹو کو دو، چلا تھا عوام کو پہچان دینے، اسی نے شروع کیا تھا ناں یہ سسٹم۔۔۔ اب بھگتو۔
سامع دوست نے میری کتھا کو یہاں روک دیا اور بولا ذرا بتائیں کہاں کہاں عزت ہوتی ہے ہماری جو بے عزتی بے عزتی کی رٹ لگا رکھی ہے۔ ہاتھ میں پیسے لئے پھرتے ہیں کہ بابا ہمیں دنیا کی سب سے مہنگی ہی سہی بجلی تو دو۔ ملتی ہے؟
شدید گرمی میں چیختے بچوں اور تڑپتے بڑوں کا جو حال ہوتا ہے اسے دنیا کی کس زبان میں عزت کہتے ہیں۔؟ میٹرک، ایف ایس سی کا سالانہ پرچہ دینے والا بچہ ساتھی سے وقت پوچھ لے تو بدبودار عملہ نقل کے جرم میں حوالات میں بند کرا دیتا ہے، علم کا پرچہ دینے والا پولیس کے پرچے میں لپیٹ کر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔۔۔ یہ کس فیروز اللغات میں عزت کا سامان ہے۔
کل ارشد ہسپتال میں داخل کشمور سے آئے بوڑھے مریض کی بچ جانے والی چائے پیتے ہوئے بیٹے کو پولیس نے توہین رمضان میں پکڑ کر تھانے بھیج دیا وہ چیختا رہا میں تین سو کلو میٹر دور سے آیا ہوں بند کمرے میں بیٹھا ہوں، مسافر کو تو روزے کی چھوٹ ہے۔۔۔ یہ کس کی عزت ہو رہی تھی؟
سامنے دیکھیں کیا جا رہا ہے؟۔
یہ تو بس ہے اس کے اوپر کیا ہے؟ یہ تو بھیڑیں لدی ہوئی ہیں۔۔ ارے نہیں یہ تو مسافر ہیں انسان نما۔۔۔ کہاں جا رہے ہیں؟ بس تو کراچی جا رہی ہے تو یقیناً کراچی کے مزدور ہیں۔ اب ذرا بتائیں سات سو کلومیٹر کا فاصلہ چھت پر سوار ہو کر کرنے سے کونسی عزت کا ایوارڈ ملتا ہے؟ ۔
چلتے چلتے شہر میں داخل ہوئے بینکوں کے آگے بوڑھی اور لاچار عورتوں کا ہجوم۔۔۔۔ کیا ہوا؟ صاحب! تین دن سے آ رہے بے نظیر سکیم کے پیسے لینے۔ بینک والے کہتے اے ٹی ایم خراب ہے۔ میرے دوست نے آہ بھری اور کہا یہ لو عینک اور تلاش کرو اس ہجوم میں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بنک۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اگر عزت مل جائے تو مجھے بتانا اس کے درشن کریں گے۔ چڑھاوے چڑھائیں گے۔
میں شرمندہ شرمندہ ادھر دیکھنے لگا تو کہا آئندہ بکواس نہیں کرنا کہ بے عزتی ہوتی ہے۔ مجھے بتاؤ پاکستانیوں کی کہاں عزت ہوتی ہے، بھول جاؤ اور نئی لغتِ اخلاق تیار کرو نہیں دوست عرب میں تو ہماری اور ہی بات ہے عمرے اور حج کے لئے جانے والوں کا بڑا احترام ہوتا ہے جس طرح داتا دربار کے زائرین کا دربار کا سجادہ نشیں فرداً فرداً استقبال کرتا ہے، ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتا ہے اسی طرح ہر حاجی کا بادشاہِ عرب خود استقبال کرتا ہے اپنے محل میں رہائش دیتا ہے اور تحائف دے کر آنسوؤں سے اسے رخصت کرتا ہے۔۔۔۔۔
باتیں کرتے کرتے میرے ساتھی کا گھر آ گیا نوکر کو بلایا اور کہا اسے ڈاکٹر نعیم کے پاس لے جائیں اور کہنا کہ اسے ذرا کم درجے کے پاگلوں کے وارڈ میں داخل کریں اور جب اسے عزت بے عزتی کا فرق سمجھ آجائے تو اسے ہسپتال میں ہی چھوٹی موٹی نوکری دے دینا یہ باہر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ ملک سانول رضا
♦