علی احمد جان
اس موسم میں جب آپ کے بچوں کو سکول کی چھٹیاں ہوں اور آپ گلگت بلتستان کی سیر کو جائیں تو اگر وہاں پر آ پ کا کوئی عزیز، دوست افسر شاہی میں ہو تو پھر مزے ہی کچھ اور ہیں۔ ایک تو تفریحی مقامات پر سرکاری اقامت گاہ آپ کو میسر ہوگی جس میں آپ کو کھانے پینے اور رہنے سہنے کی قیمت ادا کرنے کی فکر نہیں ہوگی اور پھر سرکاری گاڑیاں آپ کو حسب منشا و ضرورت دستیاب ہونگی جہاں آپ جانا چاہیں چلے جائیں اس میں تیل بھرنےاور ڈرایئور کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر آپ کا عزیز یا دوست پولیس یا انتظامیہ میں ہو تو پولیس کا ایک سکواڈ بھی آپ کی حفاظت اور خدمت پر معمور ہوگا جس سے آپ اپنی خدمت کرواسکتے ہیں۔ آپ نے اگر اپنی زندگی میں کبھی کسی نوآبادی میں بحیثیت صاحب بہادر شان و شوکت کے مزے نہیں لوٹے ہیں تو اپنے کسی عزیز یا دوست کے گلگت بلتستان میں تعیناتی کے دوران اپنی یہ خواہش پوری کر سکتے ہیں۔
یہ آج کی بات نہیں بلکہ انگریزوں اور ڈوگروں کے زمانے میں بھی صاحب بہادر اور ان کے مہمانوں کو پھنڈر جیسے دور دراز مقامات تک ڈولی یا پالکی میں کاندھے پر اٹھا کر لے جایا جاتا تھا۔ ایک سے دوسرے گاؤں تک لوگوں کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ پالکی نشین کو بغیر کسی تکلیف کے پہنچا دیا جائے۔ اگر اس دوران پالکی نشین نے شکایت کی تو نہ صرف کاندھے پر اٹھاکر لے جانے والوں کی خیر نہیں ہوتی بلکہ پورے گاؤں کو اس کی سزا دی جاتی تھی۔
میں نے ایک بزرگ سے اس کی زندگی میں پیش آئے کسی واقعے کو یاد کرنے کی فرمائش کی تو اس کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ ایک بہت ہی صحت مند حاملہ خاتون کو اٹھاکر لےجاتے ہوئے کاندھے پر اٹھانے والے بہت تھک گئے تھے جو پالکی میں بیٹھ کر ایک سویٹر بن رہی تھی۔ کبھی کبھار صاحب بہادر روانہ ہونے کے بعد کوئی چیز پچھلی منزل پر بھول آتے تو ہرکارے دوڑائے جاتے اور وہ بھولی ہوئی شے اگلی منزل پر پہنچنے سے پہلے لا کر حاضر کی جاتی تھی۔ سفر کے دوران اپنی سہولتوں کی خاطر انگریزوں اور ڈوگروں نے ہر پڑاؤ (بارہ سے پندرہ میل ) پر ایک ڈاک بنگلہ یا ریسٹ ہاؤس لازمی طور پر بنوایا تھا مگر انھوں نے کوئی سکول یا ہسپتال پورے علاقے میں نہیں بنوایا ۔
گورے صاحب نے اپنی لذت دہن اور ذوق طبع کی خاطر ٹراؤٹ مچھلی کو یورپ سے لاکر ہندوکش کے شفاف ٹھنڈے ندی نالوں میں نسل افزائی کی مگر یہاں چیچک، خسرہ اور پولیو سے مرتے بچوں کی زندگیاں بچانے کی خاطر کوئی دوا خانہ نہیں کھولا ۔ طبیب مہیانہیں کیا۔ یہاں کے ہر گاؤں میں ایک پولو گراؤنڈ بنوا کر لوگوں کو پولو کھیلنے کی ترغیب دی تاکہ ان کو اس دور دراز علاقے کے ہر گاؤں میں بار برداری کے لئے گھوڑے دستیاب ہوں مگر کسی بھی گاؤں میں سکول کھول کر یہاں کے لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس علاقے میں کشمیر سے دوبارہ وابستگی سے ہچکچاہٹ کی ایک بڑی وجہ ڈوگروں کے زمانے میں کیا جانے والا وہ ناروا سلوک ہے جو یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں نسل در نسل ایک ڈراؤنے خواب کی طرح پیوست ہے۔
انگریزوں کے چلے جانے اور ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ان لوگوں کی مشقت میں کمی نہیں آئی ہے۔ ہر پڑاؤ پر بنے ریسٹ ہاوس کی عمارت اب بھی اس غربت زدہ علاقے میں سب سے نمایاں ہوتی ہے جہاں صاحب لوگ اسی طمطراق سے آتے ہیں جن کو اس علاقے میں جہاں خوراک کی شدید قلت ہے پانچ ستاروں والے کسی ہوٹل کی طرح کا کھانا اور ناشتہ مل جاتا ہے۔
مختلف محکموں کے اپنے اپنے بنائے عشرت کدوں کے علاوہ اب تو پاکستان ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن نےتفریحی مقامات پر ہوٹل اور موٹل بھی بنا رکھے ہیں جو صرف افسر شاہی کی مہمان نوزی کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ۔ ان ہوٹلوں میں سالانہ کروڑوں روپے افسران کی عیاشیوں پر خرچ ہوتے ہیں جس کا حساب کہیں نہیں ہوتا اور نتیجتاً یہ سارے ہوٹل خسارے میں ہیں ۔ خسارے میں چلنے کے باوجود افسر شاہی کی عیاشیوں کی خاطر ان ہوٹلوں کو نجی شعبے میں دینے سے گریز کیا جاتا ہے ۔
پچھلے دنوں ایک سرکاری افسر کے مہمانوں کے شاہی دورے کے دوران ان کی حفاظت کے سکواڈ میں ڈیوٹی پر معمور ایک پولیس سپاہی کو مہمانوں کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا جب ان کے ہوٹل میں بھول کر چھوڑے موبائل فون کو اس نے ان تک پہنچا دیا جس میں فون کی سم غائب تھی۔ فون کے مالک سرکاری افسر کے مہمانوں کی اس شکایت پر کہ فون میں سم غائب ہے پہلے تو صاحب نے اس پولیس سپاہی کی سر عام درگت بنا ڈالی اور پھر تھانے میں اس کے خلاف پرچہ کروادیا جہاں اب وہ بند ہے۔
اس سپاہی کا کہنا ہے کہ اس کو فون ہوٹل سے ملا جس کو اس نے کھول کر بھی نہیں دیکھا کہ اس میں سم ہے کہ نہیں۔ جبکہ افسر کے مہمان بضد ہیں کہ فون کی سم اسی نے چرائی ہے۔ حقائق جو بھی ہوں مگر ایک بات طے ہے کہ انگریز اور ڈوگرے چلے گئے مگر پاکستانی افسران سےان کے لچھن نہیں گئے جو آج بھی مقامی لوگوں کو بھیڑ بکریوں سے بد تر سمجھتے ہیں اور ان سے وہ سلوک کرتے ہیں جو خود وہ اپنے گھر کے کتوں سے کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔
موبائل فون کا کھو جانا یا چوری ہوجانا پاکستان جیسے ملک میں کوئی انوکھی بات نہیں ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ یہ واقعہ کبھی نہ کبھی ضرور پیش آ چکا ہے اگر کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہو ا ہے تو وہ موبائل نہیں رکھتا یا پاکستان میں نہیں رہتا ہے۔ ہر بار فون سم کے کھو جانے سے اس میں محفوظ فون نمبر پھر سے ڈھونڈنے کی زحمت سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مگر فون کے سم کی چوری کے الزام میں کسی کو تشدد کا نشانہ بنانا یا اس پر اپنی برتر حیثیت کے بل بوتے پر کیس بنانا ایک بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
لوگ جب کہیں تفریح کے لئے جاتے ہیں تو ان پر مقامی ثقافت کی عزت و تکریم واجب ہو جاتی ہے۔ ہم کسی دوسرے علاقے میں جب جاتے ہیں تو سب سے پہلے اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کی بودوباش اور دیگر اقدار کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ قدر کہ نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ آپ کو تو موبائل فون کی سم دوبارہ مل سکتی ہے اور اس سے محو ہونے والے فون نمبر بھی دوبارہ مل جائیں گے لیکن جب قبائلی معاشرے میں ایک شخص پر چوری کا الزام لگ جاتا ہے تو ساری زندگی اس سے یہ داغ صاف نہیں ہوتا چاہے دنیا کی ہر عدالت اس کو بے گناہ قرار دے۔
گلگت بلتستان کا علاقہ بھی کشمیر کے تنازعے کے فیصلے تک پاکستان کے پاس بطور امانت ہے۔ پاکستان سے وہاں جاکر خدمات سر انجام دینے والے افسران پاکستان کے سفیر اور نمائندے بھی ہوتے ہیں جن کا ایک فرض یہ بھی بنتا ہے کہ مقامی لوگوں کے اندر اس ملک کے لئے انسیت اور محبت پیدا کریں اگر ایسا نہ ہو ا تو ان کو بھی مقامی لوگ ان ہی الفاظ میں یاد کریں گے جن میں آج وہ ڈوگروں کو یاد کرتے ہیں۔
♦
One Comment