خلقِ خدا کی خدمت سے سرشار اوردرد کی دولت سے اپنے دلوں کومعمورکرنے والے لوگ قطعاًغریب نہیں ہوتے ۔دل کی بات کہی جائے تو یہی لوگ ہی دنیا کے امیر ترین اور صف اول کے اشراف ہوتے ہیں، البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں مادیت پرستوں کی نظروں پر ایسی مخفی دولت کے رازکبھی کھل نہیں پاتے ۔عبدالستار ایدھی مرحوم بھی مادیت پرستی کے اس تیز رفتار دور میں اُن چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے دراہم اور دنانیر کی تجوریاں بھرنے کی بجائے فقط اپنے دل کو دردِ کی لذتوں سے معمور کیا تھا اور اسی حالت میں دار فانی سے کوچ کرگئے ۔
قابل رحم انسانوں کے بیچ قابل رشک زندگی گزار کر بے شک ایدھی ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے ۔وہ مسلمان مرے لیکن ایسے مسلمان کہ زندگی میں کسی سے بھی حساب برابر کرنے کا نہیں سوچااورایک ایسے انسان کے طور پر دوسرے جہاں کو منتقل ہوئے کہ حقیقی اُنس کی لاج رکھ کر انسان رہنے کا حق چکا دیا۔ایدھی ایک عظیم فاتح ثابت ہوئے لیکن تیمور کی طرح کھوپڑیوں کے مینار کرنے کے بجائے دل جیت کر وہاں اپنی محبت کے مینار کھڑے کردیئے۔
چھ دہائیوں سے معاشرے کے پسماندگاں ، لاوارثوں اور بے کسوں کو اپنے جگر گوشوں کی طرح سینے سے لگانے والے اس درویش کو اوجِ کمال پرپہنچانے میں زیادہ تر ان کی حدسے زیادہ انکساری کادخل رہا۔ یقیناً ایدھی جیسے منکسرُالمزاج اور اصلاح پر یقین رکھنے والوں کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب بہتر دارِ آخرت سے نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے کہ ’’ وہ آخرت کا دار توہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کرینگے جو زمیں میں اپنی بڑائی اور نہ ہی فساد چاہتے ہیں،( القصص83)۔
ایدھی کی اٹھاسی سالہ زندگی پر نظر ڈال کر بندہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچ جاتاہے کہ انہوں نے اس حدیث نبوی ؐکا بھی عملی طور پر نمونہ پیش کیا کہ ’’ مومن وہی ہے جن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے ‘‘۔یوں تو اس دیس میں تھوک کے حساب سے سیاست کے نام پر خدمتگار ، سیاسی ورکرز ، فلاحی تنظیمیں اور ٹرسٹیں دیکھنے کو ملتے ہیں ، جن کی خدمات میں پھر بھی نام ونمود کاعنصر شامل ضروررہتاہے ، مگر ایدھی وہ واحد شخصیت تھے جو داد و دہش کے طلب گار اور نا ہی کسی سے صلہ لینے کے تمنائی تھے،
صلے کی تمنا نہ ستائش کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
تقسیم ہند کے وقت لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے جن میں ایدھی نام کے مہاجر ان سب لوگوں پرسبقت لے گئے اور سب ہی کے لئے فخر کا وسیلہ بنے۔لاوارث بچوں کی کفالت اور گندی نالیوں کی غلاظتوں میں پڑے لاوارث بچوں کی کفالت کرنا ایدھی کے ہاں اعزازسمجھا جاتاتھااور اس مشن کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا گویا ان کے مسلک میں سب سے بڑی عظمت تھی۔زندگی بھر ملیشیا کھدر کے دوجوڑے بطور لباس اور مردوں کے جوتے بطور پیزار پہن کر ایدھی ہمیشہ کہاکرتے تھے کہ ایسا جامہ وپیزار زیب تن کرکے انہیں خدا اور موت دونوںیاد آتاہے اور ساتھ ساتھ وہ اسراف سے بھی بچ جاتاہے۔۔
جاوید چودھری نے خوب کہاہے کہ’’ یوں توگجراتی زبان میں لفظ ’’ایدھی‘‘ سست الوجود شخص کے لئے استعمال ہوتا تھالیکن ا نسانیت کی مسلسل خدمت کرکے ایدھی نے اس لفظ کے معانی تک بدل دیئے اور اب کوئی بھی سست انسان کے لئے ایدھی کا لفظ استعمال نہیں کرے گا‘‘ ۔۔ اٹھاسی سالہ زندگی میں ایدھی نے ہم پر یہ احسان بھی کیا کہ اپنے عمل کے آئینے میں ہمیں باچا خان جیسا خدائی خدمتگار بھی دکھا دیااور قائداعظم محمد علی جناح جیسی غیرمعمولی شخصیت کا نمونہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا۔
انہوں نے اہل پاکستان اور دنیا والوں پر یہ راز بھی کھول دیا کہ دنیا میں شاہ اور گدا ، مُلا اور مسٹر ، وزیر اور نوکرفقط ان انسانوں کے در پر جھک کر سلام کرتے ہیں اور موت کے بعد انہی لوگوں کی میتوں کو توپوں کی سلامیاں دی جاتی ہے جوبلاتقریق خلق خدا کی خدمت پریقین رکھتے ہیں۔ ہاں ان لوگوں پرافسوس کیے بغیر ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں جنہوں نے ایدھی جیسے خدا تر س اور موت کی یاد سے ہمیشہ اپنے آپ کو خوف دلانے والا انسان بھی مختلف ناموں سے یاد کرکے بخشنے نہیں دیا۔
بے شک ،ہم جیسے قابل رحم انسانوں کے بیچ قابل رشک زندگی گزار کر ایدھی امر ہوگئے۔
♦