آصف جاوید
آج گیارہ جولائی سنہ 2017 ہے۔ آج پوری دنیا میں آبادی کا عالمی دن منا یا جارہا ہے۔ یہ دن 1990 سے باقاعدہ منایا جا تاہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا میں آبادی اور وسائل میں توازن کی اہمیت کو اجاگر کرنا ، اور دنیا کو بڑھتی ہوئی آبادی اور سمٹتے ہوئے وسائل سے پیش آنے والی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئے عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنا ہے۔
آبادی پر کنٹرول حاصل کرنے اور وسائل کو آبادی کی ضروریات سے مناسب طور ہم آہنگ کرنے کے لئے منصوبہ سازی تو در اصل پالیسی سازوں کا کام ہے۔ مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے کے مصداق عوام بھی آبادی کے بے ہنگم اضافے کے پوری طرح ذمّہ دار ہیں۔ محفوظ طبّی طریقوں سے فیملی پلاننگ کرکے اپنےفیملی سائز کو اپنی ضرورت اور گنجائش کے مطابق ترتیب دینا بنیادی انسانی حق میں شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دن کو منانے کا مقصد صرف آبادی پر قابو پانا ہی نہیں، بلکہ لوگوں میں یہ شعور اور آگہی پیدا کرنا بھی ہے کہ اگروسائل کی عدم موجودگی یا کمیابی کے باوجود ا س ہی رفتار کے ساتھ دنیا کی آبادی بڑھتی چلی گئی تو آنے والی نسلوں کا کیا انجام ہوگا۔ اقوام متحدہ اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ کا مزید کہنا ہے کہ دنیا بھر کے بے شمار مسائل آبادی میں اضافے سے جڑے ہوئے ہیں، ان میں سے سرِ فہرست مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی کو بنیادی ضروریات کی فراہمی شامل ہے ،جو انسانی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ جیسے پینے کا صاف پانی، مناسب خوراک، ادویات، تعلیم، صحت، رہائش، ٹرانسپورٹیشن او ر نکاسی آب وغیرہ بنیادی انسانی ضروریات کا نفسِ ناطقہ ہیں۔
سال 2017 میں دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب نفوس سے تجاوز کر چکی ہے۔ دنیا میں ہر سال 8 کروڑ 30 لاکھ نفوس کا اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل سے پوری دنیا خطرات کا شکار ہے۔ مگر چونکہ ہماری دلچسپی کا محور اپنا ملک پاکستان ہے، لہذا ہم اس مسئلے کو پاکستان کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
قیامِ پاکستان کے وقت ریاستِ پاکستان کی کل آبادی 6 کروڑ 80 لاکھ تھی جس میں سے 2 کروڑ 40 لاکھ باشندے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان ) میں رہتے تھے۔ جب کہ 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے مشرقی پاکستان یعنی (موجودہ بنگلہ دیش ) میں رہتے تھے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی موجودہ آبادی 20 کروڑ نفوس سے زائد تجاوز کرچکی ہے۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ 70 سالوں میں پاکستان کی آبادی 25 لاکھ نفوس فی سال کی شرح سے بڑھی ہے۔ یعنی ہر 4 سال بعد پاکستان کی آبادی میں ایک کروڑ نفوس کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی یہ شرح اگر چہ ہولناک نہیں ، مگر تشویشناک ضرور ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں وسائل اور اقتدار پر ایک ایسے طبقے کی اجارہ داری ہو جو گذشتہ 70 سال سے ملکی وسائل پر دفاعِ پاکستان کے نام پر بلا شرکتِ غیرے قابض ہو، جہاں 70 فیصد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہوں، جہاں 50 فیصد سے زائد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہوں، جہاں ملکی دولت اور وسائل چند طاقتور ہاتھوں میں مرتکز ہوں۔ جہاں عوام پیدائش سے موت تک زندگی کی بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم رہ کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہوں، وہاں آبادی میں بے ہنگم اضافہ ایک تشویشناک امر ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے مصائب سے عوام کو آگاہ کرنے اور عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے بہتر استعمال کے ساتھ ساتھ جدید میڈیکل سائنس کی مدد سے آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ابلاغیات اور میڈیکل سائنس کی مدد سے آبادی پر کامیابی کے ساتھ کنٹرول حا صل کر رہے ہیں۔ پاکستان کو آبادی میں اضافے پر کنٹرول کے لئے اضافی اقدامات درکار ہیں، کیونکہ پاکستان میں سماجی اقدار و روایات ، اور مذہبی پابندیاں حکومتی اقدامات کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے حکومتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں ، سماجی تنظیموں اور مذہبی جماعتوں کو بھی عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
اس وقت پاکستان کی معیشت خاصی مشکلات میں گھری ہوئی ہے کیونکہ آبادی میں اضافے کی شرح ، ترقّی کی شرح سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ مشہور ماہرِ معاشیات جناب ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح ڈھائی فیصد سالانہ ہے۔ اور معیشت میں اضافے کی شرح گزشتہ پانچ سال سے تین فیصد رہی ہے۔ فی کس آمدنی مشکل سے آدھا فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے اگر آبادی میں اضافے کی یہ شرح یونہی برقرار رہی تو سنہ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 35 کروڑ تک پہنچنے کا امکان بعید از قیاس نہیں ہے۔
ماہرین معاشیات نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی میں تشویش کے ساتھ ساتھ ایک مثبت پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو زحمت کی بجائے رحمت کے حصول کے لئے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اگر ان نوجوانوں کو صحت مندانہ کاموں میں استعمال کیا جائے تو یہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس مقصد کے لئے ہمیں ان نوجوانوں کو اعلی ‘ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوّت میں تبدیل کرکے ترقّی یافتہ ممالک کی افرادی قوّت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بطور پراڈکٹ ایکسپورٹ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمسایہ ملک انڈیا انہی خطوط پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس ، اسپیس ٹیکنالوجی، میں افرادی قوّت تیّار کرکے ایکسپورٹ کر رہا ہے اور شاندار زرِ مبادلہ کما رہا ہے۔
پاکستان کو اپنی آبادی پر کنٹرول ، اور افرادی قوّت کو تعلیم و ہنر سے آراستہ کرکے معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بنانے اور ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ وسائل کے بہتر استعمال اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر شہری کو بنیادی انسانی ضروریات جیسے پینے کا صاف پانی، مناسب خوراک، ادویات، تعلیم، صحت، رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی آب وغیرہ فراہم کرنے کے لئے ملکی وسائل کا جائز اور منصفانہ استعمال، آبادی پر مناسب کنٹرول کےبغیر ممکن نہیں ہے۔
♦