قطر گذشتہ چند ہفتوں سے دنیا بھر میں سرخیوں میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر، سب سے بڑے عرب ملک سعودی عرب کی زبان پر قطر کا ہی نام ہے۔مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے قطر سے تعلق ختم کر لیے ہیں۔ قطر پر تمام طرح کی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ اس کے سامنے بہت شرائط رکھی گئی ہیں کہ وہ ان پر عمل کرے اور قطر نے کسی بھی شرط کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
حال یہ ہے کہ قطر کے لوگوں کو کھانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ وہ ایران کی مدد سے اپنے عوام کو کھانا، پانی اور دوسری چیزیں مہیا کرا رہا ہے۔ اس بحران کا سایہ 2022 کے فٹ بال ورلڈ کپ پر بھی منڈلا رہا ہے۔آخر کیوں قطر اس قدر سرخیوں میں ہے؟ دنیا کے بڑے بڑے ملک قطر کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ تازہ تنازع کی وجہ کیا ہے؟
قطر، خلیج فارس میں سعودی عرب سے لگا ہوا ایک انتہائی چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ صحرا ہے۔ مگر اس کا دارالحکومت دوحہ آج دنیا کے سب سے شاندار شہروں میں سے ایک ہے۔امریکہ کی جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن پھرمہرز نے قطر پر ایک کتاب لکھی ہے۔
پروفیسر ایلن بتاتے ہیں کہ دوحہ کبھی ایک چھوٹا سا گاؤں ہوا کرتا تھا جہاں پر موتیوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ اس کا نام اس وقت ‘بددا‘ ہوتا تھا۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ دو سو سال پہلے موتیوں کی ٹھیک اسی طرح اہمیت تھی جیسے آج تیل کی ہے۔
آپ نقشے میں دیکھیں، تو قطر سعودی عرب سے لگا ہوا موتی جیسا ہی لگتا ہے۔ ایک ریتیلی پٹی سی ہے جو خلیج فارس میں نکلی ہوئی ہے۔ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے درمیان واقع قطر پر طویل وقت تک انگریزوں کا قبضہ رہا تھا۔پروفیسر ایلن کے بقول 1868 میں انگریز ایک ایسے شخص کی تلاش میں تھے جسے وہ قطر کی ریاست کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دے سکیں۔ اس کے لیے انہوں نے جسے تیار کیا اس کا نام تھا محمد امام مقامی۔
انگریزوں کے چنے مقامی کنبے کا راج قطر پر آج بھی قائم ہے۔
انتہائی چھوٹا سا ملک ہونے کی وجہ سے قطر کو پڑوس کے بڑے ممالک سے تحفظ چاہیے تھی۔ قطر کو ڈر تھا کہ کہیں سعودی عرب جیسا طاقتور ملک اسے اپنے میں ہی نہ ملا لے۔ مقامی خاندان ہر قیمت پر ایسے حالات کو ٹالنا چاہتا تھا۔ اسی لیے قطر کے شیخوں نے ہمیشہ ہی سعودی عرب اور دوسرے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلق برقرار رکھے۔
آج قطر اور اس روشن دارالحکومت دوحہ کو دیکھ کر اگرچہ لگتا ہو کہ یہاں کی ریت میں ريسی ہے مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔20 ویں صدی کے پچاس کی دہائی تک قطر اتنا امیر ملک نہیں تھا۔ پروفیسر بتاتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں تو قطر کو کھانے کے لالے پڑ گئے تھے۔
لیکن، قطر میں گذشتہ پچاس سالوں میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر ملے جس کے بعد اس کی قسمت بدل گئی۔ آج کی تاریخ میں قطر میں دنیا کا سب سے بڑا گیس کا ذخیرہ ہے۔ یہی اس کی امارت کی چابی ہے۔
قطر کو 1971 میں برطانیہ سے آزادی ملی۔ انگریزوں کے جانے کے بعد قطر کے شیخ خلیفہ نے سکیورٹی کے لیے سعودی عرب کا دامن تھام لیا۔
قطر کی خارجہ پالیسی، سعودی عرب طے کرتا تھا۔ یہ بات شیخ خلیفہ کو پسند نہیں تھی۔ ان کے بیٹے شیخ حماد کو تو یہ بات اور بھی ناپسند تھ۔1952 میں پیدا ہوئے شیخ حماد آزاد خیال انسان تھے۔ انہوں برطانیہ میں رہ کر فوجی ٹریننگ لی تھی۔
شیخ حماد اپنے ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ دنیا قطر کو ایک آزاد ملک کے طور پر جانے نہ کہ سعودی عرب کے ہینگر کے طور پر۔نوے کی دہائی آتے آتے قطر کی باگ ڈور شیخ خلیفہ کی بجائے شیخ حماد کے ہاتھوں میں آ گئی۔ وہ قطر کو سعودی عرب کے شکنجے سے چھڑانے کے لیے تلملا رہے تھے۔ مگر اپنے والد کے آگے ان کی نہیں چل رہی تھی۔
آخرکار 1995 میں جب شیخ خلیفہ سوئٹزرلینڈ میں چھٹیاں منا رہے تھے تو شیخ حماد نے ان کا تختہ پلٹ دیا۔ ایک بھی گولی نہیں چلی اور قطر کا اقتدار شیخ حماد کے ہاتھوں میں آ گیا۔قطر کے اس نوجوان لیڈر کے ہاتھ میں اقتدار کی چابی آئی تو پڑوسی ملک پریشان ہو گئے۔
مگر قطر سے سعودی عرب اور دوسرے ملک اتنے پریشان کیوں تھے؟ آخر قطر کی اوقات ہی کیا؟ ریت کا ایک ٹیلا بھر ہی تو ہے! قطر کی کل آبادی 22-23 لاکھ ہے۔ کھانے پانی کے لیے وہ پڑوسیوں پر انحصار تھا۔ پھر سعودی عرب اتنا پریشان کیوں؟
قطر کے حوالے سے سعودی عرب کی پریشانی کا آغاز 1995 میں شیخ حماد کے اقتدار میں آنے کے بعد سے شروع ہوا۔ پروفیسر ایلن کہتے ہیں کہ شیخ حماد نے اپنی آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا۔اس نے سعودی عرب کے سخت دشمن ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ایران سے تعلقات کا مطلب خطے میں سعودی عرب کے اثرو رسوخ کو کم کرنا ہے جو کہ سعودی عرب کے لیے ناقابل قبول ہے۔ سعودی عرب کے حکمران قطعاً یہ برداشت نہی کرسکتے کہ قطر اس کے دشمنوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے۔
شیخ حماد نے قطر کو ایک ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے دنیا بھر سے لوگوں کو قطر بلانا شروع کیا۔ وہ قطر کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے قطر میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی شروع کی۔ فوجی اڈے بنوائے۔ مشہور یونیورسٹی کے کیمپس قطر میں كھلوائےاور سب سے بڑھ کر ایک آزاد ٹی وی چینل، الجزیرہ، کا قیام ہے۔ جس سے سعودی عرب جیسے ملکوں کے حکمران اپنی ڈکٹیٹر شپ کے لیے سخت خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کی طرف سے بحالی کی شرائط کی فہرست میں ایران سے تعلقات کا خاتمہ اور الجزیرہ ٹی وی کو بند کرنے کا مطالبہ سرفہرست ہے۔
BBC/News Desk