پانامہ کیس اور پھر جے آئی ٹی نے پاکستانی سیاست میں کچھ عرصہ سے بھونچال برپا کر رکھا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے شریف برداران کو پہلی بار للکار ا ہے اس سے پہلے کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آ یا کہ شریف برداران کا احتسا ب غیر جانبد اری سے ہوا ہو ۔ جیسے ہی یہ احتساب شروع ہوا تو آئے روز ایک نئی کہانی اور نئے افسانے نے جنم لیا ۔شریف برادارن اور ان کے قصید ہ گو وزرا ء نے خوب آہ و بکا مچا ئی او ر اس آہ وبکاہ سے انہوں نے مزید خود کو تما شہ بنا لیا۔
اس میں ایک اہم کردار محتر مہ مریم نواز ہیں جب پا نامہ پیپرز سا منے آئے تو مر یم نواز کی دو آف شور کمپیز نیلسن اور نیکس منظر عام پر آئیں مگر مریم نواز نے اْن کمپیز کی اونر شپ اور ان کے ذر یعے خر ید ی گئی تمام جا ئیداد سے لا تعلقی کا اظہار کیا اور بار بار کہتی ر ہیں میری کوئی جا ئید اد نہ تو ملک کے اندر ہے اور نہ ملک سے باہر۔ شاید انھیں یہ یقیں تھا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ہمارے گناہو ں کی پر دہ پو شی ہو جا ئے گی مگر اس بار صورت حال ان کی مرضی کے بر عکس ہو گئی ۔
مریم نواز کو جے آئی ٹی نے انویسٹی گیشن کے لیے سمن کیے ،محترمہ جے آئی ٹی میں انویسٹی گیشن کے لیے تشریف لائیں تو بہت سے سیاسی جوتشیوں اور کچھ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے و الے گروؤں نے مریم نواز کی انویسٹی گیشن جوائن کرنے کو سیاست میں دبنگ انٹری کہا تو کسی نے مستقبل کی وزیر اعظم کہہ دیا کسی نے ان کے اعتماد کو سراہا تو کسی نے ان کی تقریر کو کربلا میں حضرت زینب کی تقریر سے تشبہیہ دی ،اب اگر مریم نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کا دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو محترمہ کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے جوڈیشل اکیڈمی کے سامنے تقریر تو کی مگر صحافیوں کے کسی بھی سوال کا جواب دیے بغیر وہاں سے رخصت ہو گئیں۔
اس کے بعد میری نا قص عقل میں یہ بات نہیں آرہی کہ صحافیوں کے سوالات کو نظر انداز کر کے جوڈیشل اکیڈمی سے ا ن کی رخصتی کو تاریخی واقعہ کہنا چاہیے یا نہیں ،دوسرا یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا محترمہ مریم نواز کسی آمریت کے خلاف نبرد آزما ہیں یا کسی ایسی بیرونی طاقت کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں جو ملک وقوم کی سا لمیت کے لیے خطرہ ہے ۔و ہ تو اپنے ذاتی کرپشن کے مقدمات میں پیش ہو رہی ہیں ایسے مقدمات جو کسی سیاسی حریف کی تخلیق نہیں ہیں بلکہ پانامہ پیپرز میں دنیا بھر سے لوگوں کے نام ہیں ۔ اس میں شریف فیملی کا نام بھی شامل تھا ۔
مریم نواز کو بے نظیر بھٹو سے تشبہیہ دینے والے تاریخ کو بری طرح مسخ کر رہے ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیا الحق اور ان کی باقیات کے خلاف مثالی جدوجہد کی اور اس کے نتیجے میں دو دفعہ ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ آمریت کی پیداوار سیاسی ایلیٹ کو یہ تو یاد ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے عدالتوں میں پیشیاں بھی بھگتیں پولیس کا وحشیانہ تشدد بھی جھیلا وہ ایک منتخب وزیر اعظم اور ایشیا کے مقبول ترین لیڈر کی بیٹی تھیں مگر وہ ہر طرح کے پروٹوکول اور سیلوٹوں سے محروم رہیں ،لاہور میں محترمہ نصرت بھٹو پر پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا جس میں ان کے سر پر لا ٹھیاں بر سائی گئیں اس تشدد سے ان کے سر پر 22 ٹانکے لگے اس چوٹ کی وجہ سے ان کی یاد داشت اور ذہنی توازن بھی متاثر ہوا ۔
محترمہ مریم نواز نے سیاست میں اس وقت پاؤں رکھا ہے جب وہ نہ صرف جوان بچوں کی ماں ہیں بلکہ نانی بھی بن چکی ہیں ،میں یہ ہرگز نہیں چاہتی کہ سیاست میں آنے والی ہر عورت کو محترمہ بے نظیر جیسی اذیت سے گزرنا پڑے میری خواہش ہے کہ پاکستانی سیاست سے سیاسی مخالف سے انتقام لینے کی رسم اب ختم ہو نی چاہیے میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ الزام عورت پہ ہو یا مرد پہ قصور وار کوئی بھی ہو اسے قانون کی پاسداری کرنی چاہیے ۔
محترمہ بے نظیر کو تو اس وقت ایک طاقت ور آمر سے ٹکرانا پڑا جب وہ بہت چھوٹی تھی انہوں نے اتنی چھوٹی عمر میں انتہائی بہادری کے ساتھ جمہوریت کی جنگ لڑی بڑے صبر کے ساتھ اپنے باپ سے الوادعی ملاقات بھی کی جس میں انہوں نے آخری بار اپنے باپ کے گلے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر جابر حکمران نے یہ اجازت بھی نہ دی ،بے نظیر بھٹو کی جدو جہد کی ایک طویل داستاں ہے جس میں انہوں نے اپنے باپ اور دو بھائیوں کی لا شیں اٹھائیں اور تمام عمر انہیں کبھی باپ ،کبھی شوہر تو کبھی اپنے مقدمات لڑنے پڑے وہ تمام عمر جیلوں کچہریوں کے چکر لگاتی رہیں وہ کبھی مہنگی امپورٹڈ کاروں کے جلسوں میں نہیں آیا کرتیں تھیں ۔
ان کے ساتھ نہ تو بھائی ہوتے تھے نہ ہی شوہر۔ اس بہادر عورت نے ساری لڑائی اکیلے ہی لڑی اور اسٹبلشمنٹ کی تمام سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ،اپنے چھوٹے چھوٹے بچے گود میں اٹھائے۔ آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کرتیں یہ سلسلہ 7سال چلا ،مگر انہوں نے کبھی کوئی آہ و بکا کی نہ ہو سوالات کو کبھی نظر انداز کیا ۔بے نظیر بھٹو نے ضیا کی آمریت کو للکارتے سیاست میں انٹری دی اور مشرف کی آمریت کو للکارتے ہوئے اپنی جان دے دی،محترمہ مریم نواز جانے دیجے ۔
♦
2 Comments