پاکستان میں سیاسی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس بات پر بضد ہیں کہ وزیراعظم کو اب اپنا استعفیٰ پیش کر دینا چاہیے۔
حکومت کی اتحادی جماعتوں نے نواز شریف کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں گی جب کہ نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ وہ استعفیٰ نہ دیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان نے نہ صرف نواز شریف بلکہ شہباز شریف اور اسحاق ڈار کے استعفوں کا بھی مطالبہ کر دیا ہے اور کہا کہ وہ نیا وزیرِ اعظم نہیں بلکہ نئے الیکشن چاہتے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ وکلاء برادری بھی اب نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے، جس کی وجہ سے کئی تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک سنگین سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اوراس کے جلدی ختم ہونے کے کوئی امکان نہیں۔
معروف سیاسی مبصر عائشہ صدیقہ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملک سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت مفلوج ہوکر رہے گئی ہے۔ نوکر شاہی نے کام بند کیا ہوا ہے۔ کوئی بڑا فیصلہ نہیں ہو پا رہا اور آنے والے دنوں میں اس بحران میں شدت آئے گی۔ مسئلہ سپریم کورٹ میں جائے گا اور ملک میں ایک بار پھر دھرنوں اور احتجاج کی سیاست شروع ہو جائے گی۔‘‘
انہوں نے کہا نوازر شریف کو کرپشن کی وجہ سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے، ’’مسئلہ یہ ہے کہ نواز نے آرمی کو ناراض کیا ہے اور آرمی اس کو نکالنا چاہتی ہے۔ اگر مسئلہ صرف کرپشن کا ہی ہوتا تو آصف زرداری یا دوسرے لوگوں کو پکڑا کیوں نہیں جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن آرمی کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے بڑھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کرپٹ لوگوں کو آگے بڑھاتی ہے اور ان کو کرپشن کی وجہ سے اپنے کنڑول میں بھی رکھتی ہے تاکہ انہیں کسی وقت بھی خریدا جا سکے‘‘۔
ان کے خیال میں اب ن لیگ لڑے گی اور وقت کو بھی طول دے گی،’’لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نون لیگ نے پی پی او اور سائبر کرائم جیسے قوانین بنا کر خود فوج کو مضبوط کیا ہے۔ انہیں اس وقت لڑنا چاہیے تھا جب یہ قوانین بن رہے تھے۔‘‘۔
ایسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھی جانے والی جماعتیں بھی حکومت کے حق میں بولتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے حزبِ اختلاف سے اپیل کی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے جب کہ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے متنبہ کیا ہے کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اچکزئی کی پارٹی کے ایک مرکزی رہنما عثمان کاکڑ نے موجودہ صورتِ حال پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کرپشن کے حوالے سے صرف سیاست دانوں کا ہی احتساب نہیں ہونا چاہیے بلکہ جو جج ، بیوروکریٹ اور جنرل کرپشن میں ملوث ہیں، ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ اگر کرپشن کی آڑ میں جمہوریت پر شبِ خون مارا گیا تو ہماری پارٹی اس کے خلاف سخت مزاحمت کرے گی‘‘۔
پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے موجودہ سیاسی بحران پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نون لیگ کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ نواز شریف صورتِ حا ل پر کیسے ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں اور کیسے اس سے نمٹنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو تو اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کو خود چلے جانا چاہیے بجائے اس کے انہیں بھیجا جائے۔ میرے خیال میں میاں صاحب کو چلے جانا چاہیے اور اگر سپریم کورٹ ان کو الزامات سے بری الذمہ قرار دیتی ہے تو وہ پھر واپس آجائیں۔ ہم نے یہ مشورہ جے آئی ٹی بننے سے پہلے بھی میاں صاحب کو دیا تھا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کے احتساب کا اختیار ججوں یا بیورکریٹس کو نہیں ہونا چاہیے۔ جب پانامہ سامنا آیا، تو ہم نے سیاست دانوں کے کرپشن کے حوالے سے قوانین بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ن لیگ نے اس کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ہمارے خیال میں میاں صاحب کے خلاف پارلیمانی کمیٹی کو انکوائری کرنی چاہیے تھی‘‘۔
ان کا کہنا تھا ملک میں شدید سیاسی بحران ہے،’’جب کبھی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے یا کوئی سیاسی بحران آتا ہے تو اس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہوتا ہے اور سیاست دانوں کا اس میں نقصان ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں جمہوریت کو خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ غیر جمہوری قوتیں ایسے ہی مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں‘‘۔
پی ٹی آئی کے سابقہ رہنما جاوید ہاشمی کا کہنا ہے احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے جبکہ کہ پانامہ لسٹ میں ایک حاضر سروس جج اور جرنیلوں کے نام بھی شامل ہیں ان کا احتساب کیوں نہیں ہوتاکیا ان سے بھی کبھی باز پرس ہو گی؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے آج تک کسی جج کو کوڈ آف کنڈ کٹ کے خلاف عمل پر سزا دی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے بہت سے جرنیل (جہانگیر کرامت ، جنرل پاشا ، جنرل راحیل شریف اور جنرل جہانگیر کرامت وغیرہ ) باہر اربوں کی جائداد کے ما لک ہیں۔۔کوئی ہے جو اس پر سوال اٹھا سکے۔
DW/News Desk
♥
2 Comments